حکومت ٹیکس د ہندگان پر دباؤ ڈالے بغیر اپنی آمدن میں اضافہ کرے، ماہرین

اسلام آباد(صباح نیوز)جامع ترقی کے لئے آمدنی اور عوامی اخراجات کو بہتر بنانے کے موضوع پر پری بجٹ سٹیک ہولڈرز ورکشاپ میں ماہرین نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اورسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ذریعے اس کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قومی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

ماہرین نے کہاکہ توانائی کے بحران اور آب و ہوا کی تبدیلی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے،حکومت کو ٹیکس دھندگان پر دبا ڈالے بغیر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہئے۔ ورکشاپ کا اہتمام اپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی، ریونیو موبلائزیشن، انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ (آر ای ایم آئی ٹی) اور برطانیہ کی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایجنسی نے کیا تھا۔ اس موقع پر مختلف کاروباری اور صنعتی تنظیموں کے نمائندگان بھی موجود تھے جنہوں نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آمدہ بجٹ کے حوالے سے اپنی آراپیش کیں۔ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے افتتاحی کلمات میں ایف سی ڈی او کے سینئر اکنامک ایڈوائزر اور ٹیم لیڈ لوئی ڈین نے کہا کہ پاکستان دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹوں میں سے ایک ہے جو ملکی معیشت میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی ترقی کے لئے عملی حل اور وسائل کی ضرورت ہے،معاشی بحران سے نکلنے اور جامع ترقی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کو تمام صنعتی شراکت داروں کے ساتھ مل کرمشترکہ کوششیں کرنا ہو نگی۔ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابدقیوم سلہری نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ایس ڈی پی آئی پاکستان کا سب سے پرانا اورآزاد تھنک ٹینک ہے جو سیاسی، معاشی اور پائیدار ترقی سے متعلق پالیسی سازی میں حکومت کی معاونت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوویڈ کے بعدعالمی تنا زعات کی وجہ سے توانائی کے بحران اور آب و ہوا کی تبدیلی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیکس دھندگان پر دبا ڈالے بغیر حکومتی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہئے، اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہمیں اس پر سوچنا ہوگا۔ سیکرٹری صنعت، تجارت، سرمایہ کاری اور ہنرمند ترقی احسن بھٹہ نے اپنے خطاب میں ایس ڈی پی آئی اور یوکے ایف سی ڈی پی اور ریمٹ کا شکریہ ادا کیا انہوں نے کہا کہ برآمدکنندگان کی فورم کے ساتھ شیئر کی گئی زیادہ تر شکایات ایف بی آر سے متعلق ہیں جن کا ازالا کیا جانا چاہئے۔ ممبر ٹریبونل اے ٹی آئی آر طارق چوہدری نے کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود خدمات اور اشیاپر ٹیکسوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر عابد سلہری نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج معیشت کی دستاویزات ہیں۔ ہمیں آمدنی اور معیشت کی دستاویزات کی ضرورت ہے جو براہ راست ٹیکس کے لئے واضح سمت فراہم کرسکیں۔ایچ ایس وائی کے چارٹرڈ اکاونٹنٹ نعیم اختر شیخ نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن کے عمل کو بہتر بنانے، اس کا مقامی اور قومی زبانوں میں ترجمہ اور ایف بی آر کے انٹرنل آڈٹ سیکشن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹنٹس آف پاکستان کے کونسل ممبر اسد فیروز نے کہا کہ ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے علاوہ آڈٹ اور احتساب کا آغاز ٹیکس حکام کی داخلی سطح سے کرنے کی ضرورت ہے ۔ڈائریکٹر فوڈ بیوریجز سعید عمر نے کہا کہ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس براہ راست سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے کہا کہ تمام شعبوں کے لیے ایک ہی سیلز ٹیکس سلیب نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ ٹیکسوں میں بہتری لائی جا سکے۔تیسرے سیشن کے دوران جامع ترقی میں صوبائی حکومت کا کردار، سیکرٹری وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب سمیرا صمد نے کہا کہ محکمہ اس نظام کے لئے نیا ہے کیونکہ صنف ایک کراس کٹنگ شعبہ ہے جبکہ یہ ویمن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے صنفی مرکزی دھارے میں لانے کی نگرانی کرے گا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب کئی شعبوں میں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے کام کر رہی ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج انٹر سیکٹرل اور انٹر ایجنسی میں ہم آہنگی کا فقدان، صنف سے متعلق اعداد و شمار اور قوانین پر عمل درآمد ہے۔

کوکا کولا انڈسٹری کی سینئر ڈائریکٹر پبلک افیئرز عائشہ سروری نے کہا کہ حکومت کی نااہلی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اس شعبے پر بہت زیادہ ٹیکس اور بوجھ ہے اور اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ایف بی آر لاہور کے چیف کمشنر ایل ٹی او سید محمود حسین جعفری نے کہا کہ مضبوط مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے جو پنجاب اور سندھ میں موجود نہیں ہیں جو 18 ویں ترمیم کی روح سے انکار ہے جبکہ صوبوں کی جانب سے ریونیو پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے رکن احمد اقبال نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں تبدیلی آئی ہے جو اسکول جانے والے بچوں، پانی کی قلت، توانائی کے بحران اور ترقی سے متعلق مسائل سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ غربت، ناقص میونسپل سہولیات اور پانی کی قلت جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے فوری طور پر کام کریں۔ وزیر مواصلات و تعمیرات صہیب احمد ملک نے کہا کہ کسی بھی خطے اور قوم کی ترقی اور ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ اہم ہے لیکن اسے جامع، مختلف شعبوں اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے اسٹیک ہولڈرز کی مداخلت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے وزارت مواصلات و تعمیرات پنجاب کے زیر اہتمام بین الاقوامی سمپوزیم میں شرکت کرنے والے ماہرین کو اپنی سفارشات پیش کرنے پر خوش آمدید کہا۔ ورکشاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) کے ممبر بجٹ کامران سعید نے چیمبر کی جانب سے تجاویز پیش کیں۔انہوں نے ایس آر او 457 پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ درآمدی خام مال پر درآمدی ڈیوٹی صفرہونی چاہئے ۔گارمنٹس انڈسٹری ایسوسی ایشن کے چیئرمین مبشر نصیر بٹ نے کہا کہ سب سے بڑی رکاوٹ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی مزاحمت ہے جسے حل کیا جانا چاہئے۔ سپورٹس گڈز ایسوسی ایشن کے حسنین چیمہ نے کہا کہ ٹیکس کے شعبے میں رکاوٹوں کی وجہ سے نئے سرمایہ کار پاکستان کے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے ایس ایم ایز کے لئے ون ونڈو ٹیکسیشن کی تجویز پیش کی ۔

مشروبات کی صنعت سے تعلق رکھنے والے سید خرم شاہ نے کہا کہ اس شعبے کو ٹیکس کے معاملے میں یکساں مواقع سے محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔فٹ ویئر انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے احمد فواد نے کہا کہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے ملک کے بارے میں اچھی تاثر اور مقامی تاجروں کے لئے اچھے کاروباری تاثر کو یقینی بنانا ضروری ہے۔سرجیکل کی صنعت سے وابستہ محمدیوسف نے کہا کہ پاکستان کی درآمادت میں سرجیکل کے شعبے کا بڑا حصہ ہے۔ اس صنعت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو پہلے بھی کئی تجاویز پیش کی گئیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔