نئی دہلی:مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی تشخص کے خاتمے کے لیے بھارتی ہندووں نے جموں وکشمیر میں جائیداد خریدنے کا عمل شروع کر دیا ہے ۔ بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا ہے کہ آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد جموںو کشمیر میں 7 قطعہ اراضی غیر کشمیریوں نے خرید لیے ہیں۔
بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جموں وکشمیر میں سات پلاٹ ان افراد کو فروخت کئے گئے ہیں جن کی سکونت جموں وکشمیر سے باہر کی ہے ۔
یاد رہے بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حامل آرٹیکل 370 ختم کر دیا تھا۔ اس قانون کے خاتمے کے بعدبھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دے دی تھی، جس سے کشمیر کے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اس کشمیر مخالف اقدام کا مقصد اس متنازع خطے کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنا اور اسے دوسرا فلسطین بنانا ہے۔ بھارتی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اس متنازع خطے میں درجنوں ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن پر کشمیریوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان قوانین میں بھارتی شہریوں کو کشمیر کی شہریت دینا، زمین خریدنے اور نوکریاں کرنے کی اجازت دینا، جنگلات کی اراضی پر سرکاری تعمیرات کھڑا کرنے کی اجازت دینا، انسانی حقوق اور خواتین کمیشنز جیسے اہم اداروں کو ختم کرنا اور معدنی وسائل کو غیر مقامی افراد کے حوالے کرنا شامل ہیں۔گذشتہ برس پانچ اگست کو منسوخ کی گئی بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کی رو سے بھارت کی کسی دوسری ریاست کے کسی بھی شہری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے اور یہاں کا مستقل شہری بننے کا حق حاصل نہیں تھا۔
دفعہ 35 اے کی رو سے اس متنازع خطے میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو ہی حاصل تھا۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھا رہی ہے تاکہ ہماری ہی زمین ہم سے چھین کر ہماری شناخت کو ختم کیا جا سکے اور ہمیں اپنی ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔