سری نگر: مسلسل لاک ڈاون اور بھارتی پالیسیوں کے باعث جموں و کشمیر میں افراط زر کی شرح 7.39 فیصد اوربے روزگاری کی شرح 21.6 فیصد ہوگئی ہے ۔ بے روز گار ہونے والے نوجوانوں کی تعداد9لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ۔
بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میںبے روزگاری کی شرح بھارتی قومی اوسط سے6.9 فیصد زیادہ ہے،۔کے پی آئی کے مطابق ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں افراط زر کی شرح 7.39 فیصد ہے جو کہ قومی شرح سے 4.35 فیصد زیادہ ہے۔ بھارتی حکومت نے اگست 2019 میں یہ دعوی کیا تھا کہ اس قدم سے بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی اور آخر کار جموں و کشمیر میں معاشی ترقی میں پیش رفت ہوگی۔
بھارتی حکومت نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں کشمیر کو باہر سے 25ہزار سے30ہزارکروڑ روپے تک کی نجی سرمایہ کاری ملے گی، اور اس سرمایہ کاری سے 5لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔اگست 2019 میں دفعہ370 اور 35اے کی منسوخی کے فورا بعد، حکومت نے 3ماہ کے عرصے میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو 50ہزارسرکاری نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔بے روزگاری کا بدترین منظر اس وقت دیکھا گیا جب سروس سلیکشن بورڈ کی طرف سے گزشتہ سال جو لائی اگست میں اعلان کردہ 8,575 درجہ چہارم کی نوکریوں کے لیے 5,32,400 امیدواروں، جن میں سے بیشترگریجویٹ اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کئے ہوئے تھے، نے درخواستیں دی تھیں۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کا امتزاج جموں و کشمیر میں لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جبکہ معاشرے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے یہ وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے ساتھ اگست 2019 کے لاک ڈان کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہے۔ جموں کشمیر میں فی الوقت بے روزگاروں کی تعداد9لاکھ کو عبور کر چکی ہے،جبکہ گزشتہ2برسوں کے دوران تجارت جہاں زوال پذیر ہوئی وہیں سیاحتی صنعت بھی دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ گزشتہ2برسوں کے دوران اگر کوئی شعبہ متاثر نہیں ہوا وہ سرکاری محکموں میں تعینات ملازمین ہیں۔ ایکسپورٹروں کا کہنا ہے ہم نے عالمی وبا کی وجہ سے اپنی برآمدی منڈی سے ہونے والی آمدنی اور بیرون ملک کام کرنے والوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات کو بھی کھو دیا ہے