پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نجی تعلیمی اداروں کے لیے سہولیات پیدا کریں،پروفیسر ابراہیم خان


چارسدہ(صباح نیوز) نائب امیرو نگران شعبہ تعلیم جماعت اسلامی پاکستان پروفیسرمحمدابراہیم خان نے کہا ہے کہ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نجی تعلیمی اداروں کے لیے سہولیات پیدا کریں، بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ریفارمز کمیٹیوں میں بھی نجی تعلیمی اداروں کے نمائندوں کوشامل کرناچاہیے، حکومتی احکامات اور قومی نصاب کے مطابق بچوں کو تعلیمی سال میں240تعلیمی دن میسر آنا ضروری ہیں،تاہم اس وقت بمشکل 140دن مل پاتے ہیں ۔بروقت کتابیں مارکیٹ میں میسر نہ ہونے کی وجہ سے رواں سال طلبہ و طالبات کے ساڑھے تین ماہ ضائع ہوئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار پروفیسرمحمدابراہیم خان نے شعبہ تعلیم کے نمائندہ وفود سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفود میں جاوید خان نائب صدر پین کے پی طارق متین ،صدر پین پشاور اور محمد ابراہیم خان ڈائریکٹر نافع خیبرپختونخوا جنوبی شامل تھے، انہوں نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں میں پچاس فی صد سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، ان تعلیمی اداروں نے حکومت کا پچاس فی صد بوجھ اٹھایا ہوا ہے اس لیے حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو ہر جگہ نمائندگی دے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا مقصد نجی تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنا اور ان کے لیے سہولیات فراہم کرنا ہے تاہم مذکورہ تنظیم نے خیبرپختونخوا کے نجی تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرنے اور مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے ،جس سے نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ سربراہان ادارہ اور والدین پریشان ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ دنیا بھر میں تعلیمی نظام ماہرینِ تعلیم چلاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ تعلیمی معاملات کو چلانے کے لیے دیگر محکموں کے افسران سے کام لیا جاتا ہے پی ایس آر اے کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل کے لیے بنی ہے،تو اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے۔پرائیویٹ تعلیمی ادارہ چلانے والا ہی بہتر انداز میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مسائل سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح سے بورڈز آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ریفارمز کمیٹیوں میں بھی نجی تعلیمی اداروں کے نمایندوں کوشامل کرناچاہیے،کیونکہ سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے معاملات اور مسائل ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ پی ایس آر اے ایکٹ میں رولز کی خلاف ورزی پر دس لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے جسے نجی تعلیمی اداروں نے مستردکیا ہے۔اس حوالے سے سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا جو رولز بنے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہیں ؟،کیا ان رولز کو بناتے ہوئے ان نجی تعلیمی اداروں کے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ تنظیم من پسند قوانین بنا تی ہے اور زبردستی نجی تعلیمی اداروں پر تھوپنے کی کوشش کر تی ہے۔سوچنے کا مقام ہے کہ کم فیس والے تعلیمی ادارے لاکھوں میں جرمانے کیسے ادا کرسکتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ حکومتی احکامات اور قومی نصاب کے مطابق بچوں کو تعلیمی سال میں240تعلیمی دن میسر آنا ضروری ہیں،تاہم اس وقت بمشکل 140دن مل پاتے ہیں ۔بروقت کتابیں مارکیٹ میں میسر نہ ہونے کی وجہ سے رواں سال طلبہ و طالبات کے ساڑھے تین ماہ ضائع ہوئے ہیں۔اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کا ایک دن بھی ضائع نہ ہو۔انھوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔متاثرہ نجی سکولوں کی بورڈزکی اس سا ل کی تمام فیسز معاف کی جائیں،ٹیکسزسے چھوٹ دی جائے اور پی ایس آر اے کی فیس معاف کی جائے۔