اسلام آباد (عابدعلی آرائیں) برطانوی عدالت نے کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض اور انکے بیٹے احمد علی ریاض کے ویزے بحال کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے۔
پیراگراف نمبر ایک
برطانوی عدالت کی خاتون جج نیکولاڈیوس کاتحریری حکم سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 31 جنوری 2020ء کو برطانوی عدالت کی طرف سے دیئے گئے فیصلے پر نظرثانی کے لئے ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ عوامی مفاد کی بنیاد پر ان دونوں کے ملٹی انٹری وزٹ ویزے منسوخ کرنے کے حکم پر نظرثانی کی جائے۔ جوڈیشل نظرثانی کا دعویٰ 17 نومبر 2020ء کو اپرٹریبونل (امیگریشن اینڈ اسائیلم چیمبر) نے خارج کر دیا تھا۔ اس کے بعد فاضل جج (کیر) نے انہیں سات گراؤنڈز پر اپیل دائر کرنے کی اجازت دی تھی۔
پیرا گراف نمبر02:
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندگان پاکستانی شہری ہیں۔ ملک ریاض 15 مارچ 1949ء کو پیدا ہوئے جبکہ ان کے بیٹے احمد علی ریاض 24 جنوری 1978ء کو پیدا ہوئے۔ ملک ریاض کے پاس برطانیہ میں داخلے کا ملٹی انٹری وزٹ ویزا تھا جو 28 جولائی 2021ء تک قابل عمل تھا۔ احمد علی ریاض کا ملٹی انٹری وزٹ ویزا 18 مئی 2021ء تک قابل عمل تھا۔
پیراگراف نمبرتین
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پہلے یہ دونوں ویزے 10 دسمبر 2019ء کو منسوخ کئے گئے تھے۔ بعد میں ہر کیس کا الگ الگ جائزہ لیا گیا۔ اپیل کنندگان کی گزارشات سنی گئیں اور دوبارہ ویزوں کی منسوخی کے فیصلے کئے گئے۔ ان فیصلوں سے 21 جنوری 2020ء کو ہر اپیل کنندہ کو آگاہ کیا گیا۔
عدالت نے لکھا ہے کہ اپیل کنندگان کے ویزے امیگریشن رولز کے تحت منسوخ کئے گئے تھے۔ وزٹ ویزوں کی منسوخی کی بنیاد مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔
خاتون جج نیکولا ڈیوس نے لکھا ہے کہ
”آپ کو فوجداری سزا نہیں ہوئی لیکن میں مطمئن ہوں کہ آپ کرپشن اور مالی و کمرشل مس کنڈکٹ میں ملوث رہے ہیں جس کے باعث برطانیہ کے کرپشن کے خاتمے کے عزم کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ کے کنٹریکٹ ،کردار اور تعلقات کی وجہ سے آپ کو برطانیہ سے نکالا جانا عوامی مفاد میں ہے۔
خاتون جج نے لکھا ہے کہ امیگریشن رولز کے تحت آپ کے ویزوں کی منسوخی سے مطمئن ہوں۔ عدالت نے لکھا ہے کہ ان رولز میں کہا گیا ہے کہ اگر فیصلہ کرنے والے یہ سمجھیں کہ عوامی مفاد میں اپیل کنندہ کو برطانیہ سے نکالا جانا درست ہے تو ایسی کوئی بھی درخواست مسترد کی جا سکتی ہے۔اگر اپیل کرنے والے کا کنڈکٹ ان قواعد کی شق پانچ کے زمرے میں نہ بھی آتا ہو لیکن اس کا کردار اور تعلقات کی بنیاد ایسی درخواست کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔
پیراگراف نمبرچار
خاتون جج نے اپنے فیصلے کے اختتامی فیصلہ کن پیراگراف میں لکھا ہے کہ اپیل کنندگان بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں کرپشن اور مالی کاروباری مس کنڈکٹ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ کمپنی بحریہ ٹاؤن مکمل طور پر اپیل کنندگان اور ان کے خاندان کی جانب سے چلائی جا رہی ہے اور اس کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے کہ یہ کمپنی ایشیا میں پراپرٹی کی سب سے بڑی کمپنی ہے جبکہ متعلقہ اوقات میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین اور احمد علی ریاض اس کے چیف ایگزیکٹو افسر تھے۔
برطانوی عدالت کی خاتون جج جسٹس نیکولا ڈیوس نے ملک ریاض، احمد علی ریاض کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کا فیصلہ 26 نومبر کو سنایا ہے اپنی درخواستوں میں بحریہ ٹاؤن کے مالکان نے برطانیہ کے سیکرٹری داخلہ کو فریق بنایا تھا۔ ۔
یہ فیصلہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے اورصارفین کی جانب سے اس پر طرح طرح کے کمنٹس دیئے جارہے ہیں۔