یونیورسٹیاں مستقبل کا لائحہ عمل دیں … تحریر محمود شام


اب ہماری ساری امیدیں 17جولائی سے باندھ دی گئی ہیں۔ اس کے بعد بھی وہی ہونا ہے جو 40 سال سے ہوتا آرہا ہے۔

اس عظیم مملکت کے 22کروڑ کو یونہی تاریخوں میں الجھایا جاتا ہے۔جغرافیے سے دور رکھا جاتا ہے۔ بارشوں کے ریلے میں بہہ گئے نوجوانو، بزرگو، بچو۔ کرنٹ لگنے سے دنیا سے اٹھ جانے والے ہم وطنو، ہم نادم ہیں۔ ہم غمزدہ ہیں۔ شہر قائد کے گلی کوچو۔ شاہراہو، گھروں میں محصور ہوکر رہ جانے والے شہریو۔ ہم شرمندہ ہیں۔ ہم دکھی ہیں۔ آپ کی عید کے دن بھی بارشوں کے اثرات سے نبرد آزما ہونے میں گزر گئے۔ سندھ میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں، قصبوں، گوٹھوں میں بارشوں نے تباہی مچادی۔ پنجاب ، کے پی کے،بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں بھی یہی بد حالی ہے۔ اکیسویں صدی ہے۔جب پہلے سے خبردار کیا جاتا ہے کہ کتنی اور کیسی بارشیں ہوں گی۔ پہلے ہم بارشوں کی دعائیں مانگتے ہیں۔ جب اللہ تعالی کرم فرماتا ہے ۔ پھر ہم آسمان کو تکنے لگتے ہیں کہ یہ جھڑی کب رکے گی؟ ہم بارانِ رحمت کے طلب گار تو ہیں۔ لیکن ہمارے ظرف میں اتنی وسعتیں نہیں ہیں۔ کوئی پیش بندی کوئی تیاری نہیں ہے۔

صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ریاستوں، حکومتوں، قیادتوں، ملکوں کی سوچ اور منصوبہ بندی کا محور صرف اللہ تعالی کا زمین پر نائب انسان ہے کہ اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ آسانیوں سے معمور ہوتی رہے۔آزادی کے 75ویں سال ہمارے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، نانا نانی، دادا دادی، جس بد حالی ، بدتری اور انتہائی بے حس حکمرانی کی زد میں ہیں۔ ہم ڈائمنڈ جوبلی ۔ جشن الماسی۔ منانے کا سوچ بھی نہیں پارہے ۔اس کی ذمہ دار صرف دو ماہی حکومت نہیں ہے۔ اور نہ ہی گزشتہ ساڑھے تین سال والی۔ 40سال سے وہ کچھ ہورہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے اور وہ نہیں ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ دہشت گردی، آمریت، قومی خزانے کی لوٹ مار، غریب ہوتا ملک، امیر ہوتی اشرافیہ،ہزاروں ارب روپے قرضوں کا بوجھ، سب کچھ دیکھ لیا، بلدیاتی حکومتیں بھی رہی ہیں، صوبائی اور وفاقی بھی۔ سیاسی حکومتیں بھی۔ فوجی حکومتیں بھی۔ دونوں کی اقتدار میں شرکت بھی رہی ہے۔ لیکن اس عظیم خطے کا مستقبل شہروں کی انسانی ضروریات کے مطابق منصوبہ بندی، انسان کی جان و مال کی حفاظت، زندگی کی آسانیاں قیادتوں کی ترجیحات میں نہیں ر ہیں۔ ہم نے زمانے سے آگے کا نہیں سوچا۔ زمانے کے ساتھ آنے کی کوشش بھی نہیں کی۔40سال میں ہر حکمراں کو ،ہر رہنما کو ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے دیکھا۔ اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ رونا دھونا بند کریں۔ آئندہ ترجیحات کا تعین بہت غور و فکر، عوام سے ،ماہرین سے مشورے کے بعد کیا جائے۔

تاریخ سوال کرتی ہے کہ کیا ریاست پاکستان ناکام ہوئی ہے۔ نہیں کیونکہ اس ریاست کے شہری جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو انہیں سنوار دیتے ہیں۔ دوبئی، بحرین، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، ناروے سب اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ اپنے وطن کو بھی سنوار سکتے ہیں اگر انہیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ در اصل ناکام ہماری سیاسی اور فوجی قیادتیں رہی ہیں۔ انہوں نے ملک کی فکر ہی نہیں کی۔ اپنی ذات کا سوچا اس کی تعمیر کے منصوبے بنائے۔ اپنے خاندانوں کی خوشحالی ترجیح تھی،اسی میں وہ کامیاب رہے۔ ان کی ترجیح اب بھی یہی ہے۔ اب ان کی طرف دیکھنے۔ ان کی طرف سے کسی اشارے کا انتظار کرنے کی بجائے پاکستان کے عوام کو پاکستان کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ پاکستان کے نوجوان نا اہل نہیں ہیں۔ یہ ناسا سے پوچھیں۔ امریکہ، برطانیہ یا آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں سے دریافت کریں مگر اب پہل کرنا ہوگی۔ یہاں کے پروفیسرز، انجینئرز، ڈاکٹرز، تاجر، صنعت کار، ٹیکنیشین، پلمبر، سافٹ ویئر ماہرین، ماہرینِ معیشت، ماہرینِ تعلیم کو آگے آنا ہوگا۔

اب ماشا اللہ پاکستان کے ہر ضلع میں ایک یا دو یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ انہیں پاکستان میں بہتر حکمرانی کا محرک بننا ہوگا۔ طلبہ، اساتذہ دونوں اپنے وطن کیلئے فکر مند ہیں۔ یہ اپنے اپنے علاقے کے دردمندوں، سابق بیورو کریٹوں، سابق فوجیوں، پروفیسروں، اسکالرز پر مشتمل گروپ بنائیں۔ اپنے علاقے کے وسائل، دریاؤں، زرخیز زمینوں، معدنی ذخائر کے حوالے سے اپنے مسائل کا حل تجویز کریں۔ کتنے پل بننے چاہئیں، کتنے ڈیم، پانی کے ذخیرے ، بجلی کی پیداوار، آن لائن کاروبار، مال مویشی، اناج کی افزائش، آئندہ دس سے پندرہ سال کیلئے منصوبے ، امکانی رپورٹیں تیار کریں۔ اپنے ایم این اے، ایم پی اے کو یونیورسٹی میں طلب کریں۔ اس کو قائل کریں کہ وہ یہ منصوبہ قومی ، صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرے۔ اس طرح سارے اضلاع کی ضروریات اور وسائل سامنے آسکیں گے۔ یہ حقیقی نقشہ ہوگا۔ سرکاری دفاتر والے غیر حقیقی اعداد و شمار نہیں ہونگے۔

سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کی ایک ملک گیر تنظیم وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ ہر یونیورسٹی اپنے علاقے کی ایک ویب سائٹ بناسکتی ہے۔ فیس بک پر ایک صفحہ۔ اس کے ذریعے اپنی ترجیحات عوام تک پہنچاسکتی ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ہوسکتا ہے۔ اس وقت تو اس طاقت ور وسیلے سے 40سال سے بد ترین حکمرانی کرنے والے ہی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ لوگوں کولطیفوں میں افسانوی کہانیوں سے محظوظ کیا جارہا ہے۔ انہیں مثبت فرائض کے لئے متحرک نہیں کیا جاتا۔ ہم حکمرانوں اور رہنماؤں کا تمسخر اڑا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے اپنے مقام پر اسی طرح بیٹھے ہیں۔ وسائل پر جاگیرداروں، سرداروں، ٹھیکیداروں اور اداروں کا اسی طرح قبضہ ہے۔

پاکستان کے عوام نا اہل نہیں ہیں۔ بے حس نہیں ہیں۔ انہیں درست سمت میں لے جانے والا قائد جب بھی ملتا ہے تو وہ اس کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ اس کی طاقت میں ڈھل جاتے ہیں۔ اب ان عوام کو یونیورسٹیوں کے ذریعے خود قیادت سنبھالنی چاہئے۔سیاسی اور فوجی حکومتوں سے امیدیں نہ باندھیں۔ ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں۔ ایدھی، اخوت، سٹیزن فاؤنڈیشن، انڈس اسپتال، پروفیسر ادیب رضوی کی علاج گاہ۔ ملک میں کئی اور ادارے جو علاج اور تعلیم میں ریاست کی ذمہ داریوں کا متبادل بنے ہوئے ہیں۔ بہت کامیاب۔ اسی طرح متبادل بہتر حکمرانی کیلئے بھی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ اندازِ فکر بدلیں۔ نقطہ نظر تبدیل کریں۔ وقت یہی ہے۔ ورنہ بہت برا حال ہوگا۔

یونیورسٹیاں، ماہرین، پاکستان کو ایک خوددار، خود مختار، خوشحال ملک بنانے کے لئے اپنی صلاحیتیں آزمائیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے حکمرانوں اور اداروں پر دباؤ بڑھائیں۔ فیصلہ سازی میں اس طرح اپنی شراکت کو یقینی بنائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ