انٹرنیٹ کے مختلف پلیٹ فارموں کی بدولت زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئر کے حصول کے لئے مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی بھی فقط ان موضوعات کے بارے میں لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ان دنوں وہاں یہ سوال گونج رہا ہے کہ وطن عزیز میں کتنے باصفا صحافی باقی رہ گئے ہیں۔ دست قاتل کی زد سے فی الوقت محفوظ صحافی اس کی وجہ سے بے وقعت وگمنام ہوئے محسوس کررہے ہیں۔ اپنی خجالت مٹانے کو سوال یہ اٹھارہے ہیں کہ اصل صحافت درحقیقت کیا ہے۔یوٹیوب چینل کے ذریعے حق گوئی اس کے معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔
لوگوں کی نگاہ میں رہنے کی تڑپ ہمیں اس جانب توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دے رہی جسے انگریزی میں “بگ پکچر” کہا جاتا ہے۔اسے نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہمارے عوام کی اکثریت بہت شدت سے یہ محسوس کررہی ہے کہ مہنگائی کی موجودہ جان لیوا لہر کی واحد ذمہ دار بھان متی کا کنبہ دِکھتی گیارہ جماعتوں پر مشتمل وہ حکومت ہے جس کے وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان صاحب کو امریکی سازش کے تحت دریافت ہوئے ہتھیار یعنی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی سے فارغ نہ کیا جاتا توپیٹرول اور ڈیزل ان دنوں بھی نسبتا ارزاں نرخوں پر بازار میں میسر ہوتے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹے بھی برداشت نہ کرنا پڑتے۔ اس سوچ کی بدولت 1990 کی دہائی سے مسلم لیگ (نون) کو ہر انتخاب میں ڈٹ کر ووٹ دینے والا شہری بھی گھبرایا ہوا ہے۔
روس یوکرین پر رواں برس کے فروری میں حملہ آور ہوا تھا۔اس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کا بحران نمودار ہوا۔ عمران خان صاحب وزارت عظمی کے منصب پر ان دنوں برقرار ہوتے تب بھی پیٹرول اور ڈیزل کی تقریبا وہی قیمت ہوتی جو موجودہ حکومت طے کرنے کو مجبور ہوئی ہے۔ اس کا حل ہمارے کسی نابغے کے پاس موجود ہی نہیں۔ تیل کا ذکر کرتے ہوئے اکثر بھارت کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ حوالہ دیتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ بھارت نے 1950 کی دہائی سے خود کو غیر جانبدار قرار دیتے ہوئے امریکہ اور روس کے مابین چھڑیسردجنگ سے دوررکھا۔1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے بھارت میں درآنے کے باوجود وہ نام نہاد عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان کی خودمختاری بحال کرنے کے جنون میں مبتلا نہیں ہوا۔
افغانستان کی طویل جنگ کے بعد آزادی بھی لیکن ہمارے کام نہیں آئی۔ سوویت یونین پاش پاش ہوا تو مجاہدین کے مابین خونی خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس نے طالبان کے نمودار ہونے میں آسانی فراہم کی۔ بنیادی طورپر فقط مقامی حقائق کی وجہ سے ابھرے طالبان کو مگرہم نے سینہ پھلا کر اپنے بچے ٹھہرانا شروع کردیا۔ افغانستان کے وسطی ایشیا میں روس کے تسلط سے آزاد ہوئے ترکمانستان اور آذربائیجان جیسے ممالک قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا فطری اتحادی تصور کرتے تھے۔ ہم نے مگر ان ممالک سے طویل المدتی بنیادوں پر تیل اور گیس خریدنے کے سودے نہیں کئے۔ تہران تاریخی وجوہات کی بنا پر آذربائیجان کو وسیع تر ایران کا چھینا ہوا علاقہ شمار کرتا ہے۔ اس نے آذربائیجان کی پاکستان کے ساتھ تجارت کے زمینی راستے فراہم کرنے کی راہ فراہم نہیں کی۔ بھارت مگر روس اور ایران سے بدستور تیل خریدتا رہا۔
بھارت کے نامور صنعت کار گھرانے امبانی نے رواں صدی کا آغاز ہوتے ہی گجرات میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری کے ساتھ ایک ریفائنری کھڑی کردی۔ ایران سے درآمد شدہ خام تیل کو وہاں سے بازار میں بکنے کے قابل بنایا جاتا۔ یوں کرتے ہوئے الگ سے ڈیزل بھی تیار ہوجاتا۔ امبانی گروپ کا کاروبار چمکا تو روس نے سرکاری سرمایہ کاری سے گجرات ہی میں ایک اور جدید ترین ریفائنری تعمیر کر لی۔ روس پر یوکرین کی وجہ سے اقتصادی پابندیاں لگیں تو تیل سے لدے کئی جہاز یورپ کی جانب رخ نہ کر پائے۔انہیں بھارت کی جانب موڑ دیا گیا۔ گجرات میں قائم دونوں ریفائنریاں اب 24گھنٹے ڈیزل کو تیل سے جدا کرتے ہوئے مارکیٹ میں بیچنے کے قابل بنارہی ہیں۔ جو ڈیزل بھارت میں قائم ریفائنری میں تیار ہوتا ہے وہ مقامی منڈی کے علاوہ ان ممالک کو بھی بیچاجارہا ہے جو امریکہ کی لگائی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے روس سے براہ راست اسے خرید نہیں سکتے۔ قصہ مختصر بھارت کی تیل کے حوالے سے نسبتا آسانی اچانک نمودار نہیں ہوئی۔کلیدی وجہ اس کی وہ فیصلے ہیں جو بھارتی حکومت نے 1950 کی دہائی میں اختیار کرلئے تھے۔
بھارت کی تیل کے ضمن میں آسانی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ریاست کو اپنی پالیسیاں طویل المدتی تناظر میں کرنا چاہیے۔ مذکورہ حقیقت کی بنیاد پر اگر سوچیں تو ہمارے ہاں بجلی کی ترسیل کو وافر اور یقینی بنانے کے لئے متبادل ذرائع پر انحصار کے علاوہ کوئی اور طریقہ میسر نہیں رہا۔ اس ضمن میں سولرپینل کے علاوہ کوئی نسخہ موجود نہیں۔ شہباز حکومت اس کی جانب بڑھنے کی خواہش مند ہے۔ ایک پنجابی محاورے والا پنڈ یعنی گائوں مگر اس تناظر میں ابھی آبادہی نہیں ہوا اور سولر کی جانب رغبت کو اندھی نفرت وعقیدت کے موسم میں مہا سکینڈل بنادیا گیا ہے۔ یہ الزا م تواتر سے پھیلایا گیا کہ شہباز حکومت کی سولر انرجیکی جانب رغبت کی اصل وجہ سے وزیراعظم کے ایک ہونہار فرزند سلمان شہباز کے دھندے کو فروغ دینا ہے۔برادر ملک ترکی کی ایک کمپنی ان کی ساجھے دار بتائی جارہی ہے۔ سلمان شہباز نے مذکورہ الزام کی ڈٹ کر تشہیر کرنے والے تحریک انصاف کے عمران اسماعیل کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ ایسے نوٹس مگر غیبت پر مبنی کہانیوں کا توڑ نہیں ہوتے۔حکومت کے لئے لازمی تھا کہ میڈیا میں ایسی بحث کا آغاز کرواتی جو سولر کی اہمیت کو عام آدمی کے روبرو لاتا۔ ٹھوس اعدادوشمار کی بدولت بآسانی سمجھایا جا سکتا ہے کہ اس دھندے کے اصل اجارہ دار کون ہیں اور عالمی منڈی میں وہ اپنا سودا کس بھائو بیچ رہے ہیں۔ عمران خان کے لتے لینے والی پریس کانفرنسوں میں مصروف موجودہ حکومت کے وزرا مگر میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے اپنا سودا بیچنے کی صلاحیت سے قطعا محروم نظر آرہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت