پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ اعزاز چوہدری صاحب نے پرائم منسٹر کو تحریری مشورہ دیا کہ مصر میں فوج نے اگر منتخب صدر کا تختہ الٹ کر اسے گرفتار کرلیا ہے تو اس پر کبیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں، یہ جمہوریت پر حملہ نہیں بلکہ یہ تو اخوان المسلمون اور سیکولر عناصر کا جھگڑا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک کمزور اور بے وزن دلیل تھی۔
کیا صدر مرسی عوام کے منتخب صدر نہیں تھے؟ کیا منتخب صدر کے خلاف ایک جرنیل کی فوجی بغاوت اور اقتدار پر قبضہ جمہوریت پر شب خون نہیں تھا؟ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکا کی آشیرباد سے جنرل سیسی نے منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا، جمہوریت کے خواب دیکھنے والے ہزاروں نوجوانوں کو ٹینکوں تلے کچل ڈالا اور مصر میں روشن ہونے والی سلطانی جمہور کی کمزور سی شمع کو گل کرکے اسے پھر آمریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ مگرآپ اسے دو گروپوں کی مخاصمت قرار دے کر فوجی آمر کے جرم کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں پوچھتا ہوں کیا آپ نوازشریف کی حکومت کے خلاف جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کو دائیں بازو اور سیکولر عناصر کا جھگڑا قرار دیں گے؟ کیا آپ ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف جنرل ضیا الحق کی بغاوت کو سیکولرز کے خلاف اسلام پسندوں کی فتح قرار دیں گے؟ ترکی میں طیب اردوان کے خلاف 2016 میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو مغربی پریس نے بھی اسلامسٹوں کے خلاف سیکولر عناصر کی جنگ نہیں بلکہ ایک ناکام فوجی بغاوت قرار دیاتھا مگرحیرت ہے کہ آپ مصر میں منتخب صدر کے خلاف فوجی بغاوت کو ایک آمرانہ اقدام قرار دینے پر تیار نہیں۔
مصر کے منتخب صدر مرسی اللہ اور رسول اللہ کے بتائے ہوئے نظریہ حیات پر یقین رکھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کیا یہ ایسا جرم تھا کہ انھیں منتخب صدر ماننے سے انکار کر دیا جائے؟ یاد رہے کہ صدر مرسی انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، گھر کے لیے سبزی اور ڈبل روٹی خریدنے خود (پیدل) جاتے تھے، اس منتخب صدر کو پنجرے میں بند کرکے عدالت لایا جاتا رہا اور اسی قید و بند کی حالت میں وہ جاں سے گزر گئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ صدر مرسی ہم جیسے محکوم ذہن کے لوگوں سے یقینا بہت بہتر تھے جو نام تو مسلمانوں والے رکھتے ہیں مگر دنیا کے چوہدریوں کے ڈر سے اسلامی نظر یہ حیات کا ذکر کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ ہم غلامانہ ذھنیت کے لوگ اپنی تقریروں اور تحریروں میں لفظ دین اور اسلام کے بجائے مغرب کے لیے قابلِ قبول لفظ “فیتھ” لکھتے ہیں۔
مغرب کی گھڑی ہوئی سیاسی اسلام اور وہابی اسلام جیسی اصطلاحات استعمال کرتے اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، مغرب کی خوشنودی کے لیے رقص اور موسیقی کے ذریعے اسلام کا سافٹ امیج پیش کرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر ناچ کر بھی ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح آج کے لبرلز سے سوگنا زیادہ روشن خیال تھے مگر وہ کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں تھے اس لیے انھوں نے اپنی سیکڑوں تقریروں میں اسلامی نظامِ حیات کے ساتھ اپنی وابستگی کا بڑے فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
قائد کے پاکستان کی نمایندگی کرنے والے اپنے قائد کی طرح اسلامی فلسفہ حیات سے وابستگی کا اظہار فخر کے ساتھ کیوں نہیں کرتے۔ ہمارے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ہمارا نظریہ حیات انصاف اور مساوات کا ضامن ہونے کے ناتے پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
اس میں نہ وائلنس کی گنجائش ہے نہ انتہاپسندی کی۔ اگر ہم پرتشدد اور انتہاپسندی کا الزام لگتا ہے تو مجرموں کی طرح چھپنے اور ڈرنے کے بجائے ہمیں پورے اعتماد، جرات اور دلائل کے ساتھ ان الزامات کاجواب دینا چاہیے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے حکام، اشرافیہ اور بیوروکریسی کا طرزِ عمل غلامانہ ذہنیت اور احساسِ کمتری کا عکاس ہے۔ پاکستان کی تحریک مسلمانوں کے تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جدوجہد تھی۔ اگر ہم اپنے نظریہ حیات سے دستبردار ہوگئے تو پھر اپنے تاریخی اور تہذیبی تشخص سے محروم ہوجائیں گے اور اپنے ملک کے علیحدہ وجود کا جواز کھو بیٹھیں گے۔
اگر ہمارا ٹارگٹ ریڈر امریکا اور یورپ کے حکام اور تھنک ٹینک ہوں گے تو تحریر کا اصل جوہر اوراس کا حسن دھندلا جائے گا، اس میں آزادانہ اور دیانتدارانہ تجزیے کا فقدان ہوگا اورپھر یہ فارن آفس کے اسپوکس مین کا سرکاری بیانیہ بن کر رہ جائے گی۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ عالمی وڈیروں نے بے بنیاد الزامات لگا کر بہت سے ہنستے بستے خوشحال مسلمان ملکوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے مگر افسوس ہے کہ مصنف نے مسلم ورلڈ کے پورے چیپٹرمیں برباد کرنے والوں کا ذکر تک نہیں کیا۔
آخری باب میں مصنف نے قیامِ پاکستان اور اس کی اہمیت کا بھی ذکر کیا ہے، اگر ہمارے سفارتکاروں کو پاکستان بنانے کے اصل حقائق کا ادراک ہوجائے تو پھر وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ پاکستان کی کوئی کہانی اس بے مثل مفکر اور شاعر کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی کہ پاکستان جس کے خواب کی تعبیر اور جس کے نظریے کا ثمر ہے اور جسے بانی پاکستان اپنا آئیڈیالوجیکل گائیڈ کہتے تھے۔ اگرفارن سروس کی تربیت گاہوں میں مفکر پاکستان کا کلام اور پیغام پڑھایا جاتا تو ہمارے سفارتکار احساسِ کمتری اور خوف سے نجات حاصل کرلیتے۔ مجھے یقین ہے کہ اعزاز صاحب نے اقبال کو پڑھا ہوتا تو عالمی ایشوز پر ان کا اندازِ تحریر مختلف ہوتا۔
مفکر پاکستان نے مغرب کے گڑھ میں رہ کر اس کا مشاہدہ کیا اور پھر اس کے بلیک سپاٹ اور اس کی ہوسِ ملک گیری کو بے نقاب کرتے ہوئے مغربی تہذیب کی چمک دمک کو نقلی زیوارات کی چمک قرار دیا:۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغِ کارزاری ہے
ہم جیسے غلامانہ ذہن رکھنے والوں کے لیے دانائے راز کا یہ حیات آفرین پیغام آج بھی زندہ و تابندہ ہے:۔
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اقبال کا کلام دانش و حکمت کا ایک سمندر ہے، اس میں سے چند موتی سفیر صاحب کے ساتھ شیئر کررہا ہوں:۔
شبے پیشِ خدا بگریستم زار
مسلماناں چرازارند و خوارند
ندا آمد، نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند
ایک رات میں مناجات میں بارگاہِ الہی میں زاروقطار رو دیا اور سوال کیا کہ مسلمان اتنے زبوں حال اور عاجز و خوار کیوں ہورہے ہیں۔ ندا آئی کہ تو جانتا نہیں ان لوگوں کے پاس دل تو ہے مگر اس دل میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں ہے۔ جاوید نامہ کے چند حسبِ حال شعر ملاخطہ کریں:۔
صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب؟
العجب ثم العجب ثم العجب!
(مسلمان کے پاس قرآن ہے اور وہ ذوقِ طلب سے خالی ہے، العجب، ثم العجب، ثم العجب)
گر خدا سازد ترا صاحب نظر
روزگارے راکہ می آیدنگر
(اگر اللہ تعالی تجھے صاحبِ نظر کردے تو آنے والے زمانے کو دیکھ لے)
عقل ہا بیباک و دل ہا بے گداز
چشم با بے شرم و غرق اندر مجاز
(دور حاضر کے لوگوں کی عقل بے باک مگردل بے سوز اور آنکھیں حیا سے خالی ہیں اور وہ حسنِ مجاز میں غرق ہیں۔)
علم و فن دین و سیاست، عقل و دل
زوج زوج اندر طوافِ آب و گِل
(علم ہو ٹیکنالوجی ہو، دین ہو، سیاست ہو، یا عقل و دل ہو، سب گروہ در گروہ مادیت کے طواف میں لگے ہیں)
آسیا آں مرز و بومِ آفتاب
غیر ہیں از خویشتن اندر حجاب
(ایشیا جو سورج کی سرزمین تھی وہ اپنے آپ سے چھپا ہوا ہے اور دوسروں کو دیکھنے میں مصروف ہے)
روزگارش اندریں دیرینہ دیر
ساکن و یخ بستہ و بے ذوقِ سیر
(اس پرانے بتخانہ یعنی دنیا میں اس کی زندگی ساکن، یخ بستہ اور ذوق وجستجو سے خالی ہے)
صیدِ ملایاں و نخچیرِ ملوک
آہوئے اندیشہ او لنگ ولوک
(وہ ملاؤں اور بادشاہوں کا شکار ہوچکا ہے اس کے فکر کا ہرن لنگڑا لولا ہوچکا ہے)
عقل و دین و دانش و ناموس و ننگ
بستہ فتراک لردانِ فرنگ
(اس کی عقل، دین، دانش، ناموس و ننگ سب مغرب کے شکار بند میں بندھے ہوئے ہیں)
ہمارے سفارتکاروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری فکری، تاریخی اور تہذیبی شناخت کیا ہے۔ انھیں اپنے تہذیبی تشخص سے روشناس کرانے کے لیے ضروری ہے کہ فارن سروس اکیڈیمی میں قائد کی تقاریر اور اقبال کا کلام پڑھایا جائے، اس کے علاوہ بیرون ممالک میں تعینات سفارتکار وہاں کے اہم افراد کو باسمتی چاولوں کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال (جس کا ہر زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے) بھی تحفے میں دیا کریںکہ چاولوں کی خوشبو تو طعام گاہ تک رہے گی مگر اقبال کے آفاقی کلام جس سے صاحبانِ دانش انسپائر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کی خوشبو دور دور تک پھیلے گی۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس