مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پچھتر سال سے بھارتی ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہی آ رہے ہیں لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اب آزاد کشمیر میں بھی کشمیریوں کے لئے بھارتی مقبوضہ جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سے کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو بھارتی عدلیہ نے بے بنیاد سزا سنائی ہے اس پر حکومت پاکستان کا رد عمل کشمیریوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگانے والے اب مایوس ہو کر یہ نعرہ بھولتے جا رہے ہیں۔ اس وقت تمام محب وطن کشمیری صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف ہندوستانی مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر سے بھی رائے شماری کے علاوہ دیگر آوازوں کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ جس طرح ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے اٹھنے والی آوازیں ہندوستان کے لئے قابل قبول نہیں تھیں اسی طرح آزاد کشمیر میں خودمختاری اور رائے شماری کی آوازیں شاید پاکستان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ کشمیری جب تک کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے رہے تب تک سب ٹھیک تھا مگر اب جبکہ کشمیر سے خود مختاری اور رائے شماری کی آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں تو ان آوازوں کو بھی اسی طرح دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس طرح بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آوازیں دبانے کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے بعد اب پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی نہتے عوام اور ریاستی جماعتیں ریاستی دہشتگردی کا شکار ہو رہی ہیں جو کہ نہایت تشویش ناک امر ہے۔
انڈیا کی طرف سے توہین رسالت اور کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی سزا کے خلاف 25 جون کو کشمیری ریاستی سیاسی جماعت مشن کشمیر ٹاسک فورس کے چئیرمین کامران بٹ کی جانب سے کوہالہ پل پر احتجاجی مظاہرے کی کال دی گئی تو کشمیر پہ قائم غیر ریاستی سیاسی جماعت کی حکومت کی جانب سے مشن کشمیر ٹاسک فورس کے احتجاج کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مشن کشمیر ٹاسک فورس ضلع سدہنوتی کے سنئیر رہنما راجہ ضیاء الرحمن طارق کی سربراہی میں چلنے والے قافلے کو پولیس کی جانب سے شدید طور پر ہراساں کیا گیا۔ پولیس فورس نے ضلع سدہنوتی کے قافلے میں آنے والی گاڑیوں میں گھس کر پرامن مظاہرین کو ہراساں کیا۔ مشن کشمیر ٹاسک فورس سدہنوتی کے رہنما راجہ ضیاء الرحمن طارق، چیف آرگنائزر راجہ عمیر نذیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کو انتظامیہ کی جانب سے ڈرا دھمکا کر مظاہرے میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے سدہنوتی، پونچھ اور دیگر اضلاع سے آنے والے قافلوں کے راستوں میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ رکاوٹوں کے باوجود مش کشمیر ٹاسک فورس کے قائدین اپنے قافلوں کے ہمراہ کوہالہ پہنچے تو انہیں انتظامیہ کی جانب سے جلسہ نہیں کرنے دیا گیا۔ مشن کشمیر ٹاسک فورس کے قائدین کو انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات کے بہانے بلا کر قافلوں کے دیگر شرکاء کو طاقت کے زور منتشر کر دیا گیا۔
مشن کشمیر ٹاسک فورس کے بعد جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی جانب سے یاسین ملک کی سزا کے خلاف احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ مظفرآباد میں اقوام متحدہ کے مبصر کو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان کی جانب سے یادداشت پیش کرنا بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔ مگر جے کے ایل ایف کی کال پر آئے پر امن مظاہرین پر غیرریاستی سیاسی جماعت کی حکومت کے حکم پر انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے رات کے اندھیرے میں بد ترین تشدد اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ پولیس کے وحشیانہ تشدد کی وجہ سے کئی کارکنان نے دریا میں چھلانگیں لگا دیں۔ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائم مقام چئیرمین راجہ حق نواز بھی شدید زخمی ہوگئے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پر امن کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم رات بھر زیرحراست رکھنے کے بعد دوسرے دن کارکنان کو رہا کر دیا گیا۔ اور جے کے ایل ایف کی قیادت نے دوسرے دن مظفرآباد میں اقوام متحدہ کے مبصر کو یادداشت پیش کی۔
بھارت نے ہمیشہ طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے اور اب یہی رویہ آزاد کشمیر میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پچھتر سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیری اب تنگ آ چکے ہیں۔ لاکھوں انسانی جانوں کی قربانیوں کے بدلے میں کھوکھلے دعووں نے اس قوم کو اب مایوس کر دیا ہے۔ اپنا بہت کچھ گنوانے کے بعد کشمیری اب مزید کسی اپنے پیارے کو گنوانا نہیں چاہتے۔ وہ دو ایٹمی طاقتوں کے حصار سے نکل کر پر امن طریقے سے اس دیرینہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ وہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مزید تختہ مشق نہیں بننا چاہتے۔
اب کشمیری قوم یہ جان چکی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل نا تو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا کر نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کا نعرہ لگا کر اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ کشمیریوں کو یہ کہہ کر بہلایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔
ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اس مسئلے کا حل ہر گز نہیں ہیں کیونکہ مذاکرات کی صورت میں تین صورتیں ممکن ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ انڈیا اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے اور کشمیر کو پاکستان کے حوالے کر دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے اور کشمیر کو بھارت کے حوالے کر دے۔ یہ دونوں صورتیں تو ممکن ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ نہ تو انڈیا اتنا بےوقوف ہے کہ کشمیر کو محض مذاکرات کے ذریعے پاکستان کی جھولی میں ڈال دے اور خود کشمیر سے دستبردار ہو جائے اور نہ ہی پاکستان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس طرح کشمیر کو ہندوستان کے حوالے کر دے۔ لہذا مذاکرات کی صورت میں ایسا کوئی بھی فیصلہ نا تو ہندوستان کے لئے قابل قبول ہو گا اور نہ ہی پاکستان کے لئے۔ تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ کشمیر کا جو حصہ ہندوستان کے پاس ہے وہ ہندوستان کے پاس ہی رہے اور جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کے پاس ہی رہے ۔ تیسری صورت میں یہ فیصلہ کشمیری قوم کے لئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو گا ۔ کیونکہ کشمیری اپنی زمین کے حصے بخرے کرنے پر کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے۔ کشمیری پچھتر سالوں سے اپنی زمین پر اپنی ملکیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا لاکھوں قیمتی جانیں قربان کرنے کے بعد کشمیری اپنی زمین کے متعلق یہ فیصلہ قبول کر لیں گے؟ نہیں ! کبھی نہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذاکرات اس مسئلے کا حل نہیں ہیں تو کیا دونوں ممالک کے درمیان طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل ہے؟ ہر گز نہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دنیا دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں سب کچھ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لہذا کشمیری قوم مسئلہ کشمیر کا پر امن حل چاہتی ہے جو کہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے اور پھر کشمیری جو فیصلہ کریں اسے قبول کیا جائے۔ یہی وہ صورت ہے جس کو بنیاد بنا کر دنیا میں کشمیریوں کا مقدمہ لڑا جا سکتا ہے اور اقوام عالم کا دباؤ انڈیا پر ڈال کر اسے رائے شماری پر مجبور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اقوام عالم کشمیریوں کے اس حق رائے شماری کی قراردادوں کو پاس کر کے تسلیم کر چکی ہے۔ لہذا اگر انڈیا پر رائے شماری کی قراردادوں کی بنیاد پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جائے تو اقوام عالم کشمیریوں کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جائے گی۔
انڈیا کبھی بھی آسانی سے رائے شماری کے فیصلے کو قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ رائے شماری کے نتائج کا انڈیا کو بخوبی علم ہے۔ اس لئے انڈیا آج تک یہی کوشش کرتا آیا ہے کہ جب تک موجودہ نظام چلایا جا سکتا ہے اسی طرح چلتا رہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے رائے شماری کے مطالبے میں جن کوششوں کی ضرورت ہے وہ عملی طور پر نظر نہیں آ رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انڈیا کی طرح پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ جس طرح سے نظام چل رہا ہے اسی طرح چلتا رہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نہ تو خود اس مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کو اپنے مسئلے کے حل کے لئے آواز اٹھانے کا حق دینے پہ تیار ہیں۔ بلکہ دونوں ممالک اپنے اپنے نظریے سے متصادم ہر آواز کو طاقت سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشن کشمیر ٹاسک فورس اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پر امن احتجاجی مظاہرین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
قابل ذکر امر تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر سے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا اب ممکن نہیں رہا۔ کشمیری اب اپنا مقدمہ خود لڑنا چاہتے ہیں۔ وہ دونوں ممالک کے مذاکرات کے دھوکے سے نکل کر دنیا بھر میں اپنے رائے حق رائے شماری کی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دنیا ان کے حق رائے شماری کو پہلے سے ہی تسلیم کر چکی ہے۔ کشمیری یہ جان چکے ہیں کہ جب تک کشمیر کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے تسلیم شدہ حق رائے دہی کی بنیاد پر نہیں لڑا جاتا اس وقت تک اقوام عالم کی حمایت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اگر طاقت کے زور پر کشمیر سے اٹھنے والی ان آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی گئیں تو حالات کو خراب ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ اور پھر بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
نہ میں شہ رگ ہوں ،نہ میں اٹوٹ انگ ہوں
میں تو اپنی ہی مٹی کے سنگ ہوں
ہے حاصل مجھے بھی اپنے وجود کا حق
مانو تو امن، نہ مانو تو جنگ ہوں