آج سے 30 سال پہلے 19 جون 1992 کو کراچی میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی ختم نہ ہوئی ورنہ مزید تین آپریشن نہ کرنے پڑتے البتہ متحدہ قومی موومنٹ کو توڑنے کا جوعمل اس وقت شروع ہواتھا وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچتا نظر آرہاہے مگراس سے جو سیاسی خلا پیدا ہورہا ہے اس کو کون پر کریگا۔
کیا ہم ایک بہتر سیاسی سمت کی طرف جائیں گے اورصورتحال بہتر ہوگی۔ اس کی واضح شکل آئندہ ہونے والے بلدیاتی الیکشن، ایک اور ضمنی الیکشن اور 2023 یا قبل از وقت عام انتخابات میں سامنے آجائے گی مگرنئے سیاسی رجحانات بظاہر صاف نظر آرہے ہیں۔
اس وقت ایم کیوایم کے جتنے بھی گروپس ہیں لندن سے بہادرآباد تک اور پی آئی بی سے لانڈھی اور نرسری تک (گو مصطفی کمال پی ایس پی کو گروپ نہیں مانتے) ان میں انا کے مسائل زیادہ ہیں جو بظاہر ختم ہوتے نظر نہیں آرہے۔ غلطیوں اور مبینہ جرائم میں سب کا کہیں نہ کہیں کوئی حصہ نظرآتا ہے اور ریاستی سطح پر مہاجر سیاست سے جڑا ہر گروپ ڈرائی کلیننگ کے بعد بھی ہنوز گرے لسٹ میں ہے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے یہ گرے لسٹ کہاں سے آگئی۔ ایف اے ٹی ایف کے بعد یہ اصطلاح سامنے آئی ۔ یقین جانیں ہماری سیاست میں بھی اس طرح کی لسٹ موجود ہے یہاں تو ایک زمانے میں پی پی پی جیسی جماعت بلیک لسٹ تھی بعد میں مسلم لیگ (ن) گرے لسٹ میں آگئی اور اب خطرہ ہے کہ عمر ان خان کے نیوٹرل پر متواتر حملوں کے نتیجے میں تحریک انصاف بھی کسی لسٹ میں نہ چلی جائے۔
ایم کیوایم کامعاملہ مگر ان سب سے مختلف ہے۔ ایم کیو ایم (لندن) اب بھی بلیک لسٹ میں ہے اور گو کہ قانونی طور پر وہ کالعدم جماعت نہیں مگر 90 اب بھی نوگو ایریاہے۔ 22 اگست 2016 کو ایم کیوایم پاکستان نے اپنا ر شتہ لندن سے توڑ لیا، پارٹی آئین سے بانی کا لفظ بھی نکال دیا اور خود بانی کو بھی نکال دیا مگر اس وقت بھی ان کے لوگوں کو پرانے مقدمات کا سامنا ہے۔ سیکٹر اور یونٹ آفس کھولنے کی اجازت نہیں۔
انیس جون 1992 کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایم کیو ایم میں تقسیم کا عمل 1991 میں شروع ہوگیا تھا جب بانی کے دو قریب ترین وفادار آفاق اور عامر جو اس وقت کے پارٹی سیٹ اپ میں زونل انچارج تھے، پہلے بیرون ملک بھیجے گئے پھر نکال دیئے گئے اور پوری تنظیم معطل کردی گئی۔ اس عمل نے پارٹی کے اندر تشدد کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا اور اس کے بعد سے آج تک کئی سو لوگ مار دیئے گئے۔
جون کے آپریشن کی تیاری فروری 1992 میں شروع ہوگئی تھی بلکہ نومبر یا دسمبر 1991سے اور اسی وجہ سے سندھ کے سابق وزیراعلی جام صادق علی مرحوم نے بانی متحدہ الطاف حسین کو آگاہ کردیا اور ملک سے نکل جانے کا مشورہ دیا۔ وہ گئے تو پھر واپس نہ آئے۔
مارچ 1992 کو جنرل آصف نواز نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سندھ میں ڈ اکوؤں کے خلاف اور ان کے سیاسی سرپرستوں جن کو 72 بڑی مچھلیوں کا نام دیا گیا کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی اورآپریشن کی اجازت مانگی ۔
مئی 92 کے شروع میں کراچی میں اجلاس ہوا جس میں سابق صدر غلام اسحاق خان بھی موجود تھے اور ایم کیوایم کی قیادت بھی موجود تھی۔ 28مئی کو آپریشن شروع ہوا مگر ایک افسوسناک واقعے کے بعد جس میں نو دیہاتیوں کو ڈاکو اور دہشت گرد کہہ کر ہلاک کردیا گیا آپریشن رک گیا اور اس میجر ارشد کو ملٹری کورٹ نے پھانسی دے دی۔
انیس جون کے آپریشن کا جنرل آصف نواز، نواز شریف اور غلام اسحاق خان کو علم تھا اسی لئے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسکے خلاف بیان دیا اور ایم کیو ایم حکومت سے باہر آگئی۔
آپریشن کیلئے پولیس افسران کی فہرست بنی اس وقت راؤ انوار سکھر میں اور بہادر علی بدین میں تعینات تھے انہیں کراچی ٹرانسفر کروایا گیا۔ اہم ترین بات یہ کہ ان سب کو ایک واضح ہدایت دی گئی کہ اگر کوئی گرفتاری کے بعد لانڈھی والوں کے ساتھ جانا چاہے تو جانے دیا جائے۔
اس پالیسی پر دونوں بڑی ایجنسیوں میں اختلاف پایا گیا مگر ایم کیو ایم کے حکومت سے نکلنے کے بعد سندھ حکومت بچانا بھی درکار تھا۔بہت سے رہنما اور کارکن لندن سے تعلق توڑنے پر تیار ہوئے مگر وہ آفاق اور عامر خان کے ساتھ نہیں جانا چاہتے تھے، ان میں کچھ اراکین قومی اور سندھ اسمبلی نے دباؤ میں حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ان کو ایجنسیوں کے حصار میں لایا اور لے جایا جاتا۔
ایم کیو ایم میں الطاف حسین کے بعد سب سے معتبر رہنما چیئرمین عظیم احمد طارق تھے وہ منظر عام پر لائے گئے تو پارٹی کے کئی رہنما ان کے ساتھ آگئے۔
ان سب کو گلشن اقبال میں ایک گھر دلوا کر رکھا گیا اور ان سب کی نگرانی راؤ انوار نے کی۔ تاہم یکم مئی 1993 کو عظیم طارق اپنے دوستوں سے یہ کہہ کر کہ میں آج رات اپنی فیملی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں گھر چلے گئے اور وہیں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے۔ کہتے ہیں بعد میں ان کو مارنے والے بھی مارے گئے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ