تحفظ نسواں ایکٹ کے تحت خواتین کے خلاف ہونے والے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے،جماعت اسلامی پاکستان


لاہور (صباح نیوز)جماعت اسلامی پاکستان نے ملک میں عورت کی حالت زار اور درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ” تحفظ نسواں ایکٹ ” کے تحت خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اخلاقی تحقیر جیسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے ،خواتین اور بچوں کے خلاف قتل اور زیادتی کے مجرمان کو فوری فیصلوں کے ذریعے عبرتناک سزائیں دی جائیں،عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق حق وراثت،حق شہادت،حق ولایت،حق وصیت اور حق نکاح و خلع جیسے قانونی و معاشرتی حقوق کی عملی طور فراہمی کو ممکن بنایا جائے جبکہ خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے امیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی جائے۔یہ مطالبات مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان نے منظور کی گئی قرارداد برائے امور خواتین میں کئے ہیں

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آج پاکستانی خاتون کو تحفظ و بقا اور ترقی کے حوالے سے ماضی سے زیادہ سنگین مسائل کا سامنا ہے ـپارلیمنٹ میں تحفظ نسواں اور حقوق نسواں کے حوالے سے متعدد بل منظور ہونے کے باوجود معاشرتی ناانصافیوں اور جرائم میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔اس کو دور کرنے کے حوالے سے اصلاح احوال کی حکمت عملی کیا ہو۔اس میں اختلاف موجود ہے اس کی وجہ امداد فراہم کرنے والی ایجنسیوں اور اداروں کے اپنے مطلوبہ ایجنڈے کی تکمیل ہےـ تاہم مہذب معاشرے اور خوش حال خاندان کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہو۔جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرے کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں ـدنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں کیوں کہ رب کائنات نے اسے بے شمار جغرافیائی نعمتوں سے مالامال کیا ہے ـاس کے علاوہ یہ واحد اسلامی ریاست ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آئیـ مگر قیام کے بعد سے ہی پاکستان کی پالیسیز اغیار کی تہذیبوں کے زیر اثر نمو پاتی ہیں اورکچھ دہائیوں سے حقوق نسواں کا نعرہ بلند ہو چکا ہے جب کہ دوسری طرف اسلام کے عطا کردہ شرعی حقوق وراثت ملکیت جائیداد، مہر، نان نفقہ اور کفالت کے حقوق غصب ہو رہے ہیں ریاست اور خاندان اس کو وہ مقام فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو اسلام نے اسے عطا کئے ہیںـ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان روایات اور رسومات, معاشرتی بگاڑ, خاندانی جبر اور عدم تحفظ کے رجحانات کے سخت مخالف ہےـ

جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری نے کہا کہ اپنے اردگرد کے تصورات اور رسم و رواج کی بنیاد پر اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام ومرتبے کو سمجھنے اور بیان کرنے کے بجائے اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملا رائج شدہ طریقہ کار کا علم و شعور معاشرے میں بڑے پیمانے پر پھیلایا جائےـ معاشرے میں جہاں جہاں جس درجے کا ظلم و زیادتی بے انصافی اور افراط و تفریط موجود ہے اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا حوصلہ پیدا کیا جائےـ اسلامی معاشرہ عورت کے حقوق کا پاسبان اور محافظ ہوتا ہے اور عدل و انصاف کے لیے اس کی ہر صدا کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتا ہےـ اسلام مغربی نظریہ مساوات مرد و زن کوتسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کو ظلم سے تعبیر کرتا ہے اسلام عورت کو اس کی ضروریات کے مطابق ایک خودمختار محفوظ اور باسہولت حالات کار فراہم کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے ـ

اجلاس میں منظور کی گئی قرار داد میں کہا گیا کہ پاکستان میں عورت کی حالت زار اور درپیش مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے اجلاس کے شرکاء مطالبہ کرتے ہیں کہ :١ ۔ عورت کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے ” تحفظ نسواں ایکٹ” کے تحت خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اخلاقی تحقیر جیسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے ۔٢۔ خواتین اور بچوں کے خلاف قتل اور زیادتی کے مجرمان کو فوری فیصلوں کے ذریعے عبرتناک سزائیں دی جائیں ، ٣۔ آئین ِپاکستان کے آرٹیکل 35 کے تقاضے کے مطابق خاندان،ماں اور بچے کی حفاظت کے حوالہ سے مملکت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ ٤۔ عورت کو جائے ملازمت پر کسی بھی طرح سے ہراساں کئے جانے سے تحفظ، آزادی اور پرسکون ماحول فراہم کیا جائے۔٥۔آئین کے آرٹیکل37 (جی) کے مطابق حکومت عصمت فروشی، قمار بازی، ضرررساں ادویات کے استعمال، فحش لٹریچر اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت اورنمائش کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ملک میں حیا کا کلچر عام کیا جائے، ٦۔ عورت کو اسلام کے عطا کردہ حقوق حق وراثت،حق شہادت،حق ولایت،حق وصیت اور حق نکاح و خلع جیسے قانونی و معاشرتی حقوق کی عملی طور فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ ٧۔ خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے امیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ ٨۔ ذرائع ابلاغ میں عورت کے وقار اور مقام و مرتبے اور رشتوں کے تقدس کی اہمیت کو ترجیحاً اجاگر کرتے ہوئے اخلاقی حدود کی پاسداری کی جائے