کل جماعتی کانفرنس کا آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اور غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

اسلا م آباد(صباح نیوز)حکومت کی جانب سے فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے بلائی جانے والی کثیر الجماعتی کانفرنس میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ اسرائیل کو نسل کشی پر مبنی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف بھی شریک تھے۔

اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمن، حافظ نعیم الرحمن، مولانا فضل الرحمن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی بھی ال پارٹیز کانفرنس میں شریک تھے۔فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں 15 نکاتی اعلامیہ منظور کیا گیا جبکہ 29 نومبر 2024 کو فلسطینی عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد کو تمام جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کثیرالجماعتی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل خطے میں امن اور سیکیورٹی کو تباہ کررہا ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ حال میں ہی اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی جارحیت، غزہ میں حملوں، حماس کے رہنماوں کی تہران اور لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت خطے میں امن کی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا اور مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔فلسطین کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور بربریت کی مذمت کے عنوان سے کثیر الجماعتی کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد میں اسرائیلی کی نشل کشی کے اقدامات جس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے گئے اس کی پر زور مذمت کی گئی ہے۔

اسرائیلی مظالم کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد میں اسکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کے کیمپوں عبادت گاہوں پر حملوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔قرارداد میں غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ فلسطینی لوگوں پر کیے جانے والے مظالم اور غزہ کے محاصرہ کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔کثیرالجماعتی کانفرنس میں پیش کی جانے والی قرارداد میں غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے، اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نشل کشی کرنے پر ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کانفرنس کے اعلامیے میں عالمی برادری پر اسرائیل کو لبنان اور دیگر ممالک پر مزید مظالم ڈھانے اور خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کرنے سے فوری طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں او آئی سی، عرب لیگ، اقوام متحدہ اور دیگر برادرانہ ممالک کی طرف سے غزہ اور سرحدات پر سیاسی اور سفارتی طور پر امن واستحکام کی کاوشوں کی حمایت کا بھی اعلان کیا گیا۔

کانفرنس کے اعلامیے میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری جارحیت اور فلسطین کی ابتر صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا ایمرجنسی سمٹ بلانے اور امت مسلمہ میں اتحاد کی ضرورت پر زور دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں 18 ستمبر 2024 کو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد جس میں اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کرنے کا مطالبہ اور عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کو فلسطنیوں کی نسل کشی روکنے کے حکم پر عمل درآمد کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں 2023 میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے اجلاس میں جاری کیے گئے اعلامیے جس میں تمام ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ اور ایمونیشن فراہم کرنا بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد میں اقوام متحدہ کی جانب سے فسلطینی پناہ گزین کو ریلیف فراہم کرنے کی بھی حمایت کا اعلان کیا گیا۔قرارداد میں پاکستان کی جانب سے غزہ میں انسانی ہمدری کی بنیاد پر بھیجی جانے امداد اور لبنان کے لوگوں کیلیے طبی امداد کی فراہمی کو سراہا گیا اور مستقبل میں بھی فلسیطینی شہریوں کے لیے امداد بھیجنے کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اسے دوگنا کرنے کے عزم کا اظہارکیاگیا۔اعلامیہ میں پاکستان کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست جس کا دارالخلافہ القدس شریف ہو اس کی حمایت اور فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔قرارداد میں حکومت پاکستان کی جانب سے اسرائیلی مظالم کو روکنے اور فلسطینی شہریوں کی سفارتی،سیاسی حمایت کا اعلان کیا گیا۔قرارداد میں 29 نومبر 2024 کو فلسطینی عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا،قرارداد میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی مضبوطی سے دوبارہ تصدیق کی گئی اور کشمیر تنازعہ کے حل کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادیں شامل ہوں،کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد کو تمام جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔اس سے قبل صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہ دن دیکھیں ہیں جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسر عرفات آتے جاتے رہتے تھے، میں خود یاسر عرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کر چکا ہوں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے نتیجے میں 41 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صحت اور تعلیم کے انفرااسٹرکچر، عوامی املاک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیل نے اپنی اس سفاکانہ مہم میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانہ شروع کردیا ہے۔آصف زرداری نے کہا کہ اپنے ان اقدامات سے اسرائیل ناصرف خطے کے امن، استحکام اور سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اس کے اقدامات سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطی میں اشتعال انگیزی میں اضافے پر شدید تشویش ہے اور وہ فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور لبنان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور بہادر شہدا کے لیے دعاگو ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور ایسا کر کے وہ استثنی کے کلچر اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے عمل کو فروغ دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین اور لبنان کے عوام آزادانہ طور پر ڈر اور خوف کے بغیر زندگی بسر کرنے کے مستحق ہیں لہذا عالمی برادری اشتعال انگیزی میں کمی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جاسکے اور تنازع مزید نہ پھیل سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جارحیت کے خلاف تمام عالمی فورم پر آواز اٹھاتے ہوئے فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ مشرق وسطی میں امن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر ممکن نہیں، پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کو سپورٹ اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہے گا جو مشرق وسطی میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان یروشلم سمیت مقبوضہ عرب سرزمین سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور حق خودارادیت کے مکمل اظہار کے لیے فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پالیسی پر قائم ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔اس کے بعد مسلم لیگ(ن کے صدر نواز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غریب فلسطینیوں پر ظلم کا بازار گرم ہے اور کوئی عسکری طاقت نہ ہونے کے باوجود ان پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بچوں کی خون آلود لاشیں اور شہروں کو کھنڈر میں بدلتے دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، جس طرح سے معصوم بچوں کو والدین کے سامنے شہید کیا جاتا ہے، ماں کی گود سے بچوں کوشہید کیا جاتا ہے، اس طرح کی سفاکیت ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا نے عجیب و غریب قسم کی پالیسی اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ اسے انسانی مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ بہت بڑا طبقہ اسے مذہبی مسئلے کے طور پر سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جس طرح سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے اور انہی کی منظور کردہ قراردادوں پر کوئی عمل نہیں ہو رہا، افسوسناک بات یہ ہے کہ ان قراردادوں کے باوجود یہ صورتحال جاری ہے، وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سارا کام کر رہے ہیں، انہیں پروا نہیں ہے کہ کون سی قرارداد منظور کی ہے اور لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ دنیا کی بہت بڑی باڈی ہے جو اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی، کشمیر پر بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا، تو ایسی اقوام متحدہ کا کیا فائدہ جو دنیا کو انصاف نہ دے سکے، جہاں ظلم ہو اسے روک نہ سکے اور ناانصافی کرنے والے دندناتے پھریں۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا خون ضرور رنگ لا کر رہے گا، میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے شہباز شریف نے جو روڈ میپ دیا ہے اس پر غوروخوض ہونا چاہیے اور اسلامی ممالک کو اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں، اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے اور اگر اس طاقت کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، آج اس طاقت کا استعمال کرنے کا موقع ہے۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی پالیسی بنانی پڑے گی ورنہ ہم اسی طرح ہم بچوں کا بھی خون ہوتے دیکھتے رہیں، ماں، بہنوں اور والدین کو بھی شہید ہوتے دیکھتے رہیں گے اور کچھ نہیں کر سکیں گے، آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کیوں دندناتا پھرتا رہتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے عالمی طاقتیں ہیں جن کی اہمیت ہے لہذا ان عالمی طاقتوں کو سوچنا چاہیے کہ کب تک وہ اسلامی دنیا اور فلسطین کے لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی سفرشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ کریں اور اپنا موثر کردار ادا کریں کیونکہ پورے پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ کن اقدام کریں۔کثیر الجماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلیے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا، جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قرارداد منظور کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، آج جنگ ایران اور لبنان، یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مقف پیش کیا جاسکے، ہمیں اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کا جو واضح مسئلہ فسلطین پر 1947 سے اور اس سے قبل جو واضح مقف تھا اسے اپنا کر دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے جس کے نتیجے میں تقریبا 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور 10 ہزار افراد ملبے تلے دب چکے ہیں جبکہ 42 سے 43 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 173 صحافی بھی اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تعداد 900 کے قریب ہے اور 128 زیر حراست ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری مظالم کی وجہ سے اسکولوں، ہسپتالوں اور حتی کے چرچز کو بھی تباہ کیا گیا ہے، اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں اس کثیرالجماعتی کانفرنس سے ایک فلسطین کی آزاد ریاست کا واضح پیغام دینا چاہیے، دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مقف سے پیچھے ہٹنا ہے، قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں پاکستان کا ایک ہی مقف رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، آج اگر فلسطینی بچوں کی لاشیں ان بموں سے پگھل رہی ہیں تو کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، 2019 سے 2023 کے عرصے کے دوران امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی ایک وسیع تاریخ ہے اور وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہتا ہے، حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مقف اپنانا چاہیے، ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا آفس قائم ہونا چاہیے۔چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی کی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لییتیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس حملے سے قبل امن اور سکون تھا اور ایک دن فلسطین کی عوام جاگ اٹھی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابض فورسز پر حملہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے تین چار نسلوں تک اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے، پوری دنیا ایک طرف اور فلسطین کے نہتے معصوم بچے، جوان بوڑھے دوسری طرف، پوری دنیا نے دیکھا کہ یرغمالیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک بھی یرغمالی نہ ہو لیکن اکتوبر 7 کے بعد جو یرغمالی ہیں ان کی بھی بات کی جائے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جو اسرائیل ریاست نے بچوں اور بوڑھوں کو تین، چار نسلوں تک ان کی جیلوں میں یرغمال رکھا اور ان پر مظالم ڈھائے تو یرغمالیوں کے ساتھ ان کی بھی بات کی جانی چاہیے۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا میں سوال کرتا ہوں کہ اگر آج بھی جنگ کے پیچھے اکتوبر 7 کے یرغمالی ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ کتنے اسرائیلی یرغمالی یمن، ایران اور لبنان میں موجود ہیں؟ اکتوبر 7 اور یرغمالیوں کے واقعات بہانا ہیں، ان کا مقصد نہ صرف پورے فلسطین پر قبضہ کرنا اور نسل کشی کرنا ہے بلکہ یہ لبنان، مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور مسلم امہ نے بین الاقوامی سطح پر صیہونی ایجنڈے کوبے نقاب کرنا ہے اور ان کی اس سازش کو آج سے بے نقاب کرنا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ میں غیرمسلم ممالک کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے نسل کشی کے خلاف ایک اصولی مقف اپنایا ہے، وہ وزیراعظم اور صدر مملکت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے جتنے مسائل ہوں لیکن ہم متحد ہیں۔کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری قرارداد کے ساتھ آپ ایک بااختیار کمیٹی بنائیں گے جس میں کسی جماعت سے اگر کسی ممبر کی ضرورت ہو تو اسے ذمہ داری دی جائے اور ان کو باقاعدہ طور پر فلسطین کا سفیر مقرر کیا جائے، اگر اقوام متحدہ، او آئی سی یا دنیا کے مختلف ممالک کے پارلیمان یورپی یونین میں جانا ہو تو وہاں جائیں اور صہیونی سازش کو بے نقاب کریں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اور آنے والی نسلیں اسرائیل کے ظلم اور بربریت اور مسئلہ فلسطین کے حل ہونے تک آپ کا ساتھ دیں گی۔اے پی سی سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ کانفرنس میں شرکت پر تمام رہنماوں کا مشکور ہوں، جب بھی پاکستان کو کسی چیلنج کا سامنا ہوا توپوری سیاسی قیادت متحد ہوگئی، قائدین کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو غور سے سنا، اجتماعی سوچ اور فکر ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کوبدترین اسرائیلی جارحیت کا سامنا ہے، عالم اسلام کو آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ہم سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، وقت آگیا ہے کہ خونریزی کو بند کرانے کے لیے اپنی تمام کاوشیں بروئے کار لائی جائیں، خونریزی کو بند کرانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، جبکہ فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور القدس شریف اس کادارالخلافہ ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے، ورکنگ گروپ کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں گے، ماہرین کو شامل کریں گے اور ورکنگ گروپ صرف سیرسپاٹے کے لیے نہیں ہوگا۔شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں امدادی سامان پہنچانے میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، مزید امدادی سامان بھی غزہ کے مظلوم عوام کے لیے بھجوایاجائے گا، فلسطینی طلبہ کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے یہاں سہولیات دے رہے ہیں، جبکہ جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کا پاکستانی وفد نے بائیکاٹ کیا۔ کانفرنس میں پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی قیادت نے بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر جن دیگر شخصیات نے خطاب کیا ان میں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری سالک حسین، استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عبدالعلیم خان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ایمل ولی خان، نیشنل پارٹی کے رہنما جان محمد بلیدی، مجلس وحدت المسلمین کے رہنما راجہ ناصر عباس، سنی تحریک کے رہنما ثروت اعجاز قادری اور عالم دین حافظ طاہر اشرفی شامل ہیں۔کانفرنس کے اختتام پر 15 نکاتی قرارداد منظور کی گئی۔