اگرچہ صیہونیوں نے اپنے وجودی جواز کی خاطر گزشتہ سوا سو برس میں فلسطینیوں کو غیر تہذیب یافتہ ، دو ٹانگوں پر چلنے سفاک چوپائے ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اسرائیلی ریاست نے پوری کوشش کی کہ فلسطینیوں کے تعلیمی سفر کی راہ میں جتنی بھی مالی ، نصابی ، انتظامی رکاوٹیں ڈال سکے۔مگر سب کوششیں دیگر ہتھکنڈوں کی طرح منہ پر پڑیں ۔
آج تصویر یوں ہے کہ مقبوضہ فلسطینیوں میں عمومی خواندگی کا تناسب لگ بھگ بانوے فیصد ہے۔پینتالیس فیصد آبادی کی خواندگی میٹرک سے اوپر ہے۔لڑکوں ، لڑکیوں کے الگ الگ اسکولوں اور مخلوط تعلیمی اداروں کی تعداد کم و بیش برابر ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر گیارہ سرکاری و نجی یونیورسٹیاں، ایک اوپن یونیورسٹی ، چالیس سے زائد کالج، ایک میوزک اسکول اور چھ کے لگ بھگ علمی و سائنسی تحقیقی مراکز روزمرہ مصائب کے باوجود فعال ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی نے انیس سو چورانوے کے بعد اسرائیل ، اردن اور مصر کے تعلیمی نصاب کو تیاگ کر اپنا اسکولی نصاب مرتب کر کے مرحلہ وار متعارف کروایا۔جب کہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں فلسطینی ثقافت ، سیاست ، تاریخ اور جدوجہد کو نئی نسل تک پہنچانے پر زیادہ زور ہے۔یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ حصولِ تعلیم بھی ایک مزاحمتی ہتھیار میں ڈھال لیا گیا ہے۔
غزہ میں سات اکتوبر تک آٹھ یونیورسٹیاں ، ایک ٹیکنیکل کالج ، ایک سائنس کالج اور اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کے تحت جاری بیسیوں بنیادی اسکول فعال تھے۔آج سب کے سب ملبے کا ڈھیر ہیں۔
مگر نسل کش بمباری اور گولہ باری کی گونج میں پچانوے فیصد دربدر آبادی کے بچوں کی تعلیم کھنڈرات اور خیموں میں جاری ہے۔یہ الگ بات کہ ان لاکھوں بچوں کا دوسرا تعلیمی سال بھی ضایع ہو گیا ہے۔تاہم ہر قیمت پر حصولِ تعلیم کا حوصلہ پہلے سے دوگنا ہو گیا ہے۔بقول شخصے فلسطینیوں نے یہ مقولہ سچ کر دکھایا ہے کہ آدمی کو مرتے دم تک زندہ رہنا چاہیے ۔فلسطینی جانتے ہیں کہ انھیں ثابت قدمی اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو تعلیم کی ڈھال ہی بالاخر کام آئے گی۔
مگر یہ شعور مفت یا خیرات میں ہاتھ نہیں آیا۔ انیس سو چورانوے میں فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل سے پہلے جو بھی تعلیمی نظام میسر تھا اس میں فلسطینیوں کی اپنی کوئی آواز نہیں تھی۔چار سو برس تک وہ ترک سلطنت ( پندرہ سو سولہ تا انیس سو سترہ) کے نصابی نظام کے اسیر رہے۔انیس سو سترہ سے انیس سو اڑتالیس تک برطانوی نو آبادیاتی نظام تعلیمی نصاب کا تعین کرتا رہا۔انیس سو اڑتالیس کے بعد اسرائیل نے یہ کام سنبھال لیا۔
انیس سو سڑسٹھ تک غزہ میں مصری اور مغربی کنارے پر اردنی سلیبس لاگو رہا۔انیس سو سڑسٹھ کے بعد اگلے ستائیس برس اسرائیلی فوجی انتظامیہ نصاب اور تعلیمی اداروں کی قسمت کا فیصلہ کرتی رہی۔ کہیں انیس سو چورانوے میں فلسطینیوں کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ اپنا بنیادی سلیبس خود تشکیل دے سکیں اور یونیورسٹیاں اپنی مرضی سے بیرونی سلیبس کے مثبت نکات جوان اذہان میں سمو سکیں۔
ترکوں نے فلسطین پر چار سو برس حکومت کی مگر بنیادی تعلیم کے جدید سرکاری اسکول عثمانی قبضے کے ساڑھے تین سو برس بعد انیسویں صدی میں قائم ہونے شروع ہوئے۔چونکہ عثمانیوں نے جدید بنیادی تعلیم کے لیے اپنا کوئی نصابِ مرتب نہیں کیا۔لہذا فلسطین میں اٹھارہ سو انہتر کے بعد جو چند سرکاری پرائمری اسکول قائم ہوئے ان میں ترک زبان میں ترجمہ شدہ فرانسیسی نصابی کتابیں فراہم کی گئیں اور طلبا کی امتحانی جانچ کا نظام بھی فرانس سے مستعار لیا گیا۔
عربی زبان میں نصاب نہ ہونے کے سبب سرکاری اسکول عام فلسطینی والدین میں زیادہ مقبول نہ ہو سکے۔چنانچہ مسجد مکتب میں زیادہ بچے پڑھتے تھے۔ حالانکہ یہ مکتب اسکول پانچ تا بارہ برس کی عمر تک کے بچوں کو قرآنی تعلیم ، حروف تہجی کی پہچان ، لکھت اور ابتدائی گنتی سکھانے تک محدود تھے۔ان مکتبوں میں ایک ہی خواندہ یا نیم خواندہ مرد استاد ہوتا جو امامت اور موذن کے فرائض بھی انجام دیتا۔
جب انیس سو سترہ میں فلسطین سے عثمانی سلطنت کا بوریا بستر لپٹا تب تک صرف بائیس فیصد مقامی آبادی ابتدائی لکھت پڑہت سے واقف تھی۔صرف چونتیس فیصد بچے کسی بھی نجی یا سرکاری اسکول میں جا رہے تھے۔ ان میں سے بھی نصف بچے سرکاری اسکولوں کے بجائے عربی میڈیم مشنری اسکولوں اور مدارس میں پڑھ رہے تھے۔جب کہ یورپ سے آنے والے یہودیوں نے اپنے علیحدہ اسکول قائم کیے جن میں عبرانی زبان میں جدید علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔
عثمانی دور میں فلسطین میں ایک بھی سیکنڈری اسکول قائم نہیں ہوا۔جنھیں پرائمری کے بعد آگے پڑھنا ہوتا انھیں کوسوں دور دمشق کے سیکنڈری اسکولوں کا رخ کرنا پڑتا۔ زیادہ تر فلسطینی والدین اتنے تعلیمی و سفری و رہائشی اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں تھے۔ اور اگر کسی کو یونیورسٹی کی تعلیم کا شوق ہوتا تو اسے استنبول جانا پڑتا۔کیونکہ پورے بلادِ شام ( بشمول لبنان و فلسطین ) کوئی یونیورسٹی نہیں تھی۔استنبول یونیورسٹی میں بھی سائنسی و سوشل مضامین سے زیادہ فنِ حرب سے متعلق مضامین پڑھائے جاتے تھے۔
البتہ ایک فرانسیسی خاندان ڈی لا سیل برادرز نے اٹھارہ سو اٹھانوے کے بعد جدید تعلیم کے فروغ کے لیے شام ، لبنان ، مصر اور فلسطینی شہروں بیت اللحم ، جافا ، نذرتھ اور یروشلم میں میں مشنری اسکول کھولے۔( بیت اللحم کا مشنری اسکول بعد ازاں ترقی کرتا کرتا انیس سو تہتر میں کیتھولک یونیورسٹی بن گیا۔مقبوضہ مغربی کنارے پر کھلنے والی یہ پہلی یونیورسٹی تھی۔)
بیروت میں انیسویں صدی کے آخر میں سیرین پروٹسٹنٹ مشنری کالج کھلا جسے انیس سو بیس میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔آج اسے ہم امریکن یونیورسٹی بیروت کے نام سے جانتے ہیں۔فلسطین سے قریب ترین قاہرہ یونیورسٹی تھی جو انیس سو آٹھ میں قائم ہوئی۔جب کہ دمشق یونیورسٹی انیس سو تئیس میں قائم ہوئی۔
بیروت ، دمشق اور قاہرہ کی جامعات نے مستقبل کی عرب قیادت تیار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔مثلا قاہرہ یونیورسٹی نے تین نوبیل انعام یافتہ شخصیات ( نجیب محفوظ ، یاسر عرفات ، اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ محمد البردائی ) کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بوترس غالی ، عرب لیگ کے سابق سیکریٹری جنرل امر موسی ، مصر کے واحد منتخب سابق صدر محمد مرسی ، مارکسسٹ فلسطینی رہنما جارج حباش ، صدام حسین ، ایمن الزواہری ، نائن الیون ہائی جیکرز کے رنگ لیڈر محمد عطا ، ہالی وڈ اداکار عمر شریف اور موساد کے سب سے کامیاب ایجنٹ ایلیا کوہن کو پیدا کیا۔
دمشق یونیورسٹی نے اردن اور شام کے متعدد وزرائے اعظم و وزرا خارجہ کے علاوہ بیسویں صدی کے معروف عرب شاعر نظار قبانی اور فلم ساز و ڈائریکٹر مصطفی عکاد کو پیدا کیا۔انھوں نے دی مسیج جیسی شہرہِ آفاق فلم بھی بنائی۔اسی طرح بیروت یونیورسٹی نے ڈاکٹر حنان اشراوی سمیت فلسطینی تحریکِ آزادی کے کئی رہنماوں کی تربیت و تعلیم میں اہم کردار ادا کیا۔ (جاری ہے)۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس