سوہنا سجیلا ساجن: ٹرمپو جان … تحریر : سہیل وڑائچ


آج کل تضادستان میں ہر طرف ٹرمپو جان کا چرچا ہے۔ انصافی بھائی ٹرمپو جان پر صدقے واری جا رہے ہیں۔ اس کا بدلا ہوا ہیئرسٹائل ہو یا اسکے مشیر کے ٹویٹ، انہیں سب کچھ بہت بھا رہا ہے۔ وہ انہیں سوہنا لگ رہا ہے، سجیلا بھی لگتا ہے اور آج کل وہ ان کا ساجن بھی ہے۔ساری امیدوں کا مرکز وہ ہے۔ وہ آئے گا تو کپتان باہر آئے گا اور اسکے سب مخالف اندر جائیں گے ۔ تضادستان کی حکومتوں کو لوگ بیوقوف سمجھتے ہیں جبکہ تضادستانیوں پر حکومت کرنے و الے بیوقوف ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ سب سے چالاک ہوتے ہیں، تضادستانیوں کی چالاکیوں کو وہ خوب سمجھتے ہیں اور ان کا ایسا توڑ کرتے ہیں کہ انکی ساری چالاکیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ انصافی بھائی ٹرمپو جان کو ساجن کا درجہ دے چکے ہیں۔ دوسری طرف چالاک حکومت نے بھی ٹرمپو جان پر کمند ڈالنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ حکومتی بھائی چند دنوں میں سب کو حیران کر دینے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔فرض کریں کہ انصافی بھائی ٹرمپو جان کے ٹویٹس کے سحر میں جو دھمال ڈال رہے ہیں ،اگر انہیں یہ حیران کن خبر ملے کہ ٹرمپ کی تقریب ِحلف برداری میں ایک اہم حکومتی وزیر بھی شامل ہوگا تو کیا انکی دھمال بند نہیں ہو جائے گی؟ خوشیاں کافور نہیں ہو جائیں گی؟ کیا امیدیں دم نہیں توڑ جائیں گی؟

ٹرمپو جان سے بہت دور تضادستان میں آنے والے وقت کی لہریں تو بہرحال پہنچ رہی ہیں۔ تضادستان، شام جیسا آسان شکار نہیں، نہ لبنان وغزہ جیسا بے دست وپا ہے اور نہ ہی لیبیا جیسی بد نظمی کا نمونہ ۔ ایران کی طرح وہ امریکہ کو چیلنج بھی نہیں کر رہا مگر اسکے باوجود چار اداروں پر امریکی پابندیاں زبان حال سے پکار پکار کر خبردار کر رہی ہیں کہ تضادستان امریکہ اور اسرائیل سے چھپا ہوا نہیں ہے، اس پر دنیا بھر کی کڑی نظر ہے بالخصوص اس کا ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام مغربی دنیا کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ گو میں اس رائے سے ذاتی طور پر اتفاق نہیں کرتا مگر بعض اہم دفاعی تجزیہ نگار پریقین ہیں کہ تضادستان کے اندر سیاسی عدم استحکام، بلوچستان اور پختونخوا میں دہشت گردی دراصل میزائل اور ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کے پلان کا حصہ ہے، مقتدرہ کے اندر یہ خیال بھی مضبوط ہو رہا ہے کہ امریکہ کی خان میں غیر معمولی دلچسپی کہیں کسی سازشی کڑی کا حوالہ تو نہیں۔

مجھے رات کے جگنو نے ٹمٹماتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ حکومت سپیکر کے ذریعے مذاکرات پر پوری طرح تیار ہے اور اس حوالے سے ایک حکومتی کمیٹی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیر داخلہ محسن نقوی کا نام بھی شامل تھا مگر وزیر داخلہ نے آخری وقت میں اپنا نام نکلوا لیا۔ جگنو کے مطابق مذاکرات چند دنوں تک شروع ہو جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف کے مطالبے پر اسلام آباد فائرنگ کے بارے میں کمیشن بھی بنا دیا جائے، دھاندلی کمیشن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ رات کے جگنو نے اطلاع دی ہے کہ حکومت نے اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے کمیشن میں جانے کی تیاری بھی مکمل کرلی ہے ،حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 6سرکاری لوگ جان بحق ہوئے ہیں اور 6ہی تحریک انصاف سے وابستہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حکومت نے یہ ثبوت تیار کر لئے ہیں کہ تحریک انصاف کے دو لوگ ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوئے، دو لوگ سرپر زخم لگنے سے جان سے گئے اور دو لوگ فائرنگ کی زد میں آ کر راہی ملک عدم ہو گئے۔ فائرنگ کے حوالے سے حکومتی فرازنک رپورٹ یہ کہتی ہے کہ کہیں سرکاری اسلحے سے نکلی ایک بھی گولی کا ثبوت نہیں ملا، تحریک انصاف کے جن لوگوں کو گولیاں لگی ہیں ان کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا اور انہیں دفنا دیا گیا، اگر تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تو حکومت انکی قبرکشائی کیلئے بھی تیار ہے۔ جگنو نے جو اطلاعات دیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ مذاکرات ہونگے۔ پی ٹی آئی کی اشک شوئی کا انتظام بھی ہو گا مگر نظام کے اندر کسی تبدیلی یا کسی نمایاں سیاسی ادل بدل کا کوئی امکان نہیں۔

تضادستانی معاشرے میں ہر رومانس سے خطرات وابستہ ہوتے ہیں رومانس آپ کو ڈبو بھی سکتا ہے اور بچا بھی سکتا ہے۔ انصافی بھائیوں کا ٹرمپو جان سے رومانس اور اِشک (عشق) بھی ملکھ (ملک) اور خود عمران خان کیلئے کئی خطرے پیدا کر رہا ہے، رومانس چونکہ اشک کی طرح اندھا ہوتا ہے اس لئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ پھولو ں سے کب کانٹوں میں آگرے اور کب آپ اپنی منزل تخت سے ،تختے کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ تضادستانی مقتدرہ کو شروع ہی سے کسی سیاستدان کی سپر پاورز سے زیادہ محبت اور زیادہ نفرت پسند نہیں وہ یہ اختیار اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے ۔بھٹو نے امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دیکر اپنا دشمن نمبرون بنایا مقتدرہ اور عدلیہ نے سپرپاور کی شہ پاکر اس نفرت کی سزا پھانسی کی شکل میں دیدی ۔بے نظیر بھٹو کو ڈارلنگ آف دی ویسٹ کا خطاب دیا گیا اور آصف زرداری کو امریکہ سے تعلقات کے بدلے میں میموگیٹ بھگتنا پڑا۔ سیاستدان مقتدرہ سے بالابالا کسی بھی سپرپاور سے پینگیں بڑھائے یا نفرت کے بیج بوئے دونوں صورتوں میں غدار سمجھا جاتا ہے۔ کاش کوئی عمران کو سمجھائے کہ اس گلی میں نہ جائو اس میں مشکلات ہی مشکلات ہیں ۔بے نظیر بھٹو، امریکہ اور برطانیہ کے ذریعے این آر او کرکے واپس آئیں جنرل مشرف اور دونوں مغربی طاقتوں نے انکی سیکورٹی کی ضمانت دی مگر عملا مقتدرہ نے کبھی NROکو نہ مانا اور انجام بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت پر ہوا۔ ٹرمپو جان ہمارے ابا جان ہیں مگر تضادستانی وہ شرارتی بچے ہیں جو اباجان کی بھی نہیں مانتے، عین ابا جان کے سائے میں بیٹھ کر ایٹمی پروگرام کو مکمل کر لیا ،سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر میزائل پروگرام کو کامیاب کر لیا۔ تضادستانی جتنے بیوقوف، بزدل اور کمزور نظر آتے ہیں، اتنیوہ ہیں نہیں۔ وہ بہت چالاک ہیں وقت آنے پر دنیا کی ہر طاقت سے لڑ کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔ اتنے بزدل بھی نہیں کہ ڈھے جائیں یہ کھڑے ہو جائیں تو طاقتور دشمن کو بھی دوچارتو ضرور لگا دیتے ہیں۔

آخر میں پھر عرض ہے کہ تضادستان کو پاکستان بنانا ہے تو صلح، صفائی، مذاکرات اور مصالحت ہی واحد راستہ ہے۔ ایک دوسرے کو گرانے اور تباہ کرنے سے نہیں،خوشحال ملکھ ایک دوسرے کو جگہ دینے سے بنے گا!!!

بشکریہ روزنامہ جنگ