16دسمبر …کیلنڈر سے کیسے نکال دی جائے…کشور ناہید


یہ روح فرسا تاریخ ہم جیسے پڑھنے لکھنے والے لوگوں کو بہت رلاتی اورشرمندہ کرتی ہے۔ کتابوں میں اس کا حزنیہ بیانیہ، ہمارےاداروں اور ہماری قوم کیلئے ناقابل قبول ہونے کے باوجود، سچ ہے۔ اسی طرح آج سےدس سال پہلے 16دسمبر ہی کو پشاور کے اسکول میں دہشت گردوں نےبچوں کو ایسا نشانہ بنایا کہ انکی استاد بھی بچوں کو بچاتے ہوئے شہید ہوگئی تھی۔ لاکھ کہیں کہ ہماری ایجنسیاں بہت فعال ہیں اور بڑی تفتیش کرتی ہیں۔ تاہم کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ صبح آٹھ بجے، ہمارے پھول سے بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالنے والے کئی دن سے تیاری پکڑے ہوئے تھے۔ میرا بار بار اپنے سارے اداروں پرسے اعتبار اُٹھ جاتا ہے، جب کبھی ایسے حادثات پیش آتے ہیں جو ضیاء الحق کے زمانے سے شروع ہوئے اور اب تک ہمارے جوانوں کو لاشوں کی صورت چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسے سقوطِ مشرقی پاکستان ہم جیسے لوگوں کو نہیں بھولتا کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے جنگلات اور دریاؤں میں ادبی شامیں گزاری ہیں ۔جب مشرقی پاکستان والے کہتے تھے کہ پٹ سن جیسی سنہری نعمت کو مغربی پاکستان کھا جاتا ہے۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ جو کبھی فراموش نہیں ہو سکے گا، پہلے تو بھٹو صاحب کا قتل، ناانصافی اور وہ بھی رات کے دو بجے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اس حوالے سے اس زمانے کے منصفین کو قاتل کہا ہے۔ اور بعد میں بینظیر کا قتل جس کا آج تک یہ نہیں پتہ کہ اپنوں نے کیا کہ وہ بھی دہشت گردوں کی گولیوں سے ہوا، وہ دلیر عورت جس کو دوپٹے میں دیکھ کر، ساری دنیا کی عورتوں نے اسکارف پہننے شروع کئے تھے۔ اس خاتون کے جسدِ خاکی کو میں زمین میں دفن دیکھ کر آئی، پھر بھی اعتبار نہ اس وقت آیا تھا نہ اب تک آتا ہے کہ اب تو بلاول میاں نے سب جگہ ماربل لگوا کر، ساری عمارت میں ہر قبر پر خطاطی کے ساتھ نام لکھوائے ہیں۔ میں جب ماربل میں لپٹی قبروں کو دیکھ رہی تھی تو مجھے وہ بی بی یاد آرہی تھی جو تین سال کی بختا ور کو اسمبلی جاتے ہوئے چاکلیٹ دیکر جایا کرتی تھی، جس کی وزارتِ عظمیٰ کو پہلی دفعہ، اس کے اپنے لگائے ہوئے صدر نے شاید طاقتوروں کے کہنے پر،ختم کر دیا تھا۔

اس سال نوبل انعام، جنوبی کوریا کی خاتون ’’ہان‘‘ کو اس کے ناول پر دیا گیا جو ان معاملات و واقعات کے تناظر میں ہے جو جنوبی کوریا کے جیجو جزیرے میں 1948ء پر پیش آئے تھے ۔ اب ہم پلٹ کر اپنے ادب کی سمت دیکھیں۔ اردو، انگریزی اور ہندی میں تقسیم ہندوستان کی دو قوموں کو الگ کرنے اور نام دینے کیلئے جو لاکھوں لاشیں گریں اور خون کے دریا بہے، لکھنے والوں نے اس انسانی سانحہ پر بہت کچھ اور دلسوز لکھا۔ اسکے بعد 1971ء کے خونیں واقعات پر بھی ساری زبانوں میں لکھا گیا اور فلمیں بھی بنیں، ڈھاکہ میں تو ترانے سے لیکر لبریشن میوزیم تک بنا۔ جو بچے اس وقت پرائمری میں تھے۔ انکے بعد کی تین نسلیں پاکستان سے نفرت کرتے جوان ہوئیں، حسینہ واجد نے جس پرجلتی پہ بارہ برس تک تیل کا کام کیا۔ بالکل ایسے جیسے گزشتہ دس سال میں مودی اور اس کی تحریک گاؤ ماتا اور وشوا ہندو پریشد نے عمران خان کی طرح نوجوان نسل کو نفرت اور تخریب کی ایسی پٹی پڑھائی کہ انڈیا میں مسلمانوں کا قتل عام بات ہوگئی اور پاکستان میں ہر روز دہشت گردوں کے حملوں نے ہمارے جوانوں کے گھر اجاڑ دیئے۔ کہنے کو 4ایجنسیاں نگہداشت کرتی ہیں وہ کبھی صحافیوں کو گھروں سے اٹھا لیتی ہیں اور کبھی کبھار کچے میں ڈاکوؤں کی شکاربے چاری بے آواز خلقت کو، چھڑانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہیں ہمارے وکیلوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو غصہ آتا ہے کہ جن لوگوں کو 9مئی کو گرفتار کیا ان کے جو بھی فیصلے کرنے ہیں، کریں۔ تاریخ کی گواہی میں اپنا نام شامل کریں۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔پہلے مغلوں کے آخری بادشاہ کو کیسے ذلیل کرنے کے بعد اس کےبیٹوں کے سرطشت میں دکھا کر، رنگون جلاوطن کر دیا تھا، اب گزشتہ 20برس میں عراق، لیبیا، ایران اور اب شام میں ملک کو دہشت گردوں کے ہاتھ میں چھوڑ کر بشارالاسد چوبیس سال تک عقوبت خانوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہڈیاں تک پسوا کر خود روس میں جا بیٹھا ہے۔ شام کی آدھی سے زیادہ آبادی، یورپ کے ملکوں میں پناہ گزین رہی ہے۔ اب بات کریں کہ جسے ساری دنیا انقاب کہہ رہی ہے یہ واقعی انقلاب ہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل آبادی بڑھا رہا ہے۔ امریکہ شام کی سر زمین پر حاوی ہونے کیلئے ایک اور بادشاہت یعنی اردن سے بات چیت کر رہا ہے۔ شاید امریکہ بھی گزشتہ شامی حکومت کے آٹو میٹک مشینوں سے لوگوں کو مروانے کے شواہد دیکھ کر، کچھ ایسا نظام لا کر کچھ اور جمہوریتوں کو بھی ختم کرنے کیلئے استعمال کرئے۔

16 دسمبر کو ابھی ہم رو رہے تھے کہ تازہ خبرسنی کہ پاک و ہند کا ایک بڑا طبلہ نواز ذاکر حسین بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہم نے تو شوکت علی کو اب تک فراموش نہیں کیا تھا۔ یہ فنکار، ابتدائے جوانی ہی میں دنیا بھر میں گھوم کر، انڈیا اور پاکستان کے بڑے کلاسیک فنکاروں کی سنگت کرتا رہا۔ پاکستان میں بس ایک تار سارہ گیا ہے۔ نہ اب عابدہ پروین گا رہی ہے اور نہ کوئی بڑا فنکار موجود ہے۔ عابدہ سلامت رہے۔

انگریزوں کے بنائے قانون میں میوزک اور ڈانس کیلئے ادارے بنانے کی اجازت ہے۔ ہماری 77سالہ حکومتوں نے ان قوانین اور فنکار اداروں کی جانب توجہ ہی نہیںدی۔ ضیا محی الدین کے دم سے ایک ادارہ تھا، معلوم نہیں، انکی وفات کے بعد وہ ادارہ کس حال میں ہے۔ ہماری حکومتوں کیلئے ادب اور موسیقی اتنی اہم نہیں جتنی مولویوں کیلئے قوانین سازی۔ ہمارے ہاں ہی یہ قانون بھی پاس ہوا تھا کہ مدرسوں میں اسکول کا نصاب بھی پڑھایا جا ئے۔ اس طرح مدرسوں سے نکلنے والے بچے میٹرک پاس بھی ہوں گے اور کالج میں داخل بھی ہو سکیں گے۔ یہ بہت صائب قانون تھا۔ مگر ہمارے بہت ذہین مولانا صاحب اس کو تبدیل کرانے پر مصر ہیں۔ اب میں یاد کرائوں کے 500سال قبل مسیح میں موزارٹ پیانو ایجاد ہوا تھا۔ صدیوں بعد اب موزارٹ کو تابندگی اور زندگی دینے کو شنگھائی میں، میلان کی طرز کا موزارٹ بنایا اور بجایا جارہا ہے۔چاہیے کہ ہم بھی اپنے فنون کی نو یافت کریں اور نوجوانوں کو سیاست سے نکال کر نئے ذاکر حسین سامنے لائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ