محتاج کو داتا دے(آمین)۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، بالآخر ایک سال بعد سپریم کورٹ، ملٹری تحویل میں PTI متعلقین 85ملزمان پر فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی گئی۔ تکلیف سے کہنا پڑتا ہے اس عرصہ وہ سپریم کورٹ کے یرغمالی تھے۔
افغانستان، عراق، لیبیا اور اب شام سے محروم ہو چکے ہیں۔ اقوام عالم میں عملاً چاروں اسلامی ممالک غیرفعال ہو چکے ہیں ۔ اگلی باری کس مسلمان ملک کی، آنیوالے دنوں میں ایران اور پاکستان پہلی ترجیح ،امریکہ اسرائیل نے سب کچھ طے کر رکھا ہے ۔ چند ہفتے پہلے ، مشرقی وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ متزلزل نظر آرہاتھا ، آج عملاً مشرق وسطیٰ میں کروفر سے تسلط قائم ہوچکا ہے کہ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ ویسے تو پاکستان کی طرف بڑھتے قدموں کی گونج شروع ، آج ہی 4کمپنیوں پر پابندی عائد ،آغاز ہو چکا ہے۔ انتظار فرمایئے !مزید دباؤ اور ہتھکنڈے زیر استعمال کہ ایک مقصد پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانا ہے۔
24 نومبر لانگ مارچ کی شاندار ناکامی کے بعد، عمران خان نے آخری پتہ کھیلنے کی ٹھانی اور 15 دسمبر سے سول نافرمانی مہم، علاوہ ازیں بذریعہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر آمد کورُکوانے کا اعلان فرما ڈالا ۔ قطع نظر کہ 14اگست 2014ء آزادی مارچ (ڈی چوک دھرنا) سے لیکر حالیہ SCO سربراہی کانفرنس میں رخنہ ڈالنے کے عزم تک، درجنوں لانگ مارچ، دھرنے، ریلیاں ترتیب دیں ۔ درجنوں بار ولولہ انگیز قیادت بنفس نفیس موجود، ہر ایسی مہم جوئی شروع کرنے سے پہلے گرمانے، اُکسانے، بھڑکانے کیلئے درجنوں جلسے کر ڈالے ، ایک مہم بتائیں ، جہاں ناکامی نے عمران کا منہ نہ چڑایا ہو ۔
24 نومبر کے لانگ مارچ اور D چوک پر چڑھائی کا اعلامیہ جاری ہوا تو تکرار کیساتھ ایک بات کہتا رہا، ’’24نومبر احتجاج ناکام ہو گا‘‘۔ ناکامی ثبت رہی۔ پچھلے کالم میں یہی بتایا ’’24نومبر کا احتجاج عمران خان کی بڑھتی فرسٹریشن اور PTI رہنماؤں پر بداعتمادی کا نتیجہ تھا‘‘۔ خواہ مخواہ فرسٹریشن میں ناکامی گلے پڑی، پبلک نکالنے میں ہر بار ناکام رہے۔ عمران خان کی پچھلی کال لیڈران کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست ورکرز کیلئے چنانچہ قیادت بشریٰ بی بی کو سونپی گئی۔ اگرچہ وسیع تر قومی مفاد میں قائم حکومت مع اسٹیبلشمنٹ نے ستیاناس کرنے میں کبھی کنجوسی نہیں دکھائی ۔ہمیشہ بھونڈے طریقہ سے ہینڈل کیا ۔ PTI کولاشوں کا جھوٹا سچا بیانیہ دے ڈالا۔ جھوٹ یا سچ میں پڑے بغیر ، اہم اتنا کہ عمران خان کے مقلدین دل جمعی سے کم از کم ہزار بندوں کی شہادتوں کی چشم دید گواہی دے رہے ہیں ۔ خوش قسمتی اتنی کہ عمران خان کا یہ بیانیہ بھی بِن کھلے مرجھا چکا ۔ آنیوالے دنوں میں آخری پتہ بھی گیدڑ بھبکی رہنی ہے ۔ جبکہ حکومت عمران خان کی اس کیفیت کو انجوائے کرئیگی ۔
عمران خان کو داد، اپنی کسی ناکامی پر مقلدین کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ہربار ایک نئے مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا ڈالے۔ ماننے والے کم ازکم سوشل میڈیا پرہی نئے بیانیہ کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں ۔ یہاں ایک مسئلہ، عمران خان طفل تسلی دیتے دیتے خود ہی اپنی طفل تسلی کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔تساہل عارفانہ، سول نافرمانی اور ترسیلات زر رُکوانا اس تیقن کیساتھ سہل سمجھ بیٹھے کہ اموات ’’فیکٹر‘‘ تحریک میں جان ڈال دے گا ۔ اگرچہ آخری کال فی الوقت معطل کہ کمال شفقت سے حکومت کو چند دنوں کی مہلت دے دی۔ پوچھنا بنتا ہے کہ 15 دسمبر کی کال 17دسمبر تک موثر تھی، دو دنوں میں حکومت کا کیا بگاڑ لیا۔ نجانے عمران خان نے اگلا الٹی میٹم کس زعم میں دیا؟، حکومت کے نزدیک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد سے بلواسطہ، بلاواسطہ، کھلے عام، پس پردہ، درجنوں دفعہ مذاکرات کیلئے جتن جاری رہے، ہر حیلہ کر ڈالا، خاطر میں نہ لائے گئے۔ تحریک انصاف کی ’’آزاد قیادت‘‘ اور اہم حکومتی و پارٹی عہدے عمران خان نے بقلم خود جن افراد کے سپرد کیے، مقصد ایک ہی کہ اسٹیبلشمنٹ تک پیغام رسانی ہو سکے، رابطہ رہے۔ باقی سب بڑھکیں۔ آخری کال پر مطالبہ ایک ہی 9مئی اور 26نومبرپر جوڈیشل کمیشن اور فوراً عمران خان کی رہائی ، وگرنہ ترسیلات زر رُکوا دوں گا ۔ ویسے تو حکومت کو چاہیے کہ اب اتوار کو بھی گزرنے دے۔ حاصل جمع ! ناکامی نے منہ چڑانا ہے ۔ یادش بخیر ! وزیراعظم بنتے ہی زُعم میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں خصوصاًمغرب کو $1000حکومت پاکستان کو دینے کی اپیل کی ،شرمندگی اٹھانا پڑی۔ 32سال پہلے نواز شریف کی کال ’’قرض اُتارو ملک سنوارو‘‘ زیادہ موثر اور کارگر رہی تھی۔
میرے نزدیک حالیہ مذاکرات کئی ہفتوں سے جاری ہیں ۔البتہ اس دفعہ کے دو مطالبات میں ایک دلچسپ پہلو ، 9مئی پر جوڈیشل کمیشن ،عمران خان 9مئی پر معافی مانگنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کیلئے من پسند 3 ججز پراصرار یعنی باقی سپریم کورٹ پر عدم اعتمادکہ من پسند فیصلہ کے متمنی ہیں ۔ حضرات متوجہ ہوں! آنیوالے دنوں میں عمران خان معافی مانگ لیں گے جبکہ رہائی ممکن نہیں۔ ’’شاید‘‘ گھر میں قید کی سہولت دی جائے۔ کہیں نہ کہیں یہ غور و خوض بھی کہ تحریک انصاف شہباز حکومت کا حصہ بن جائے یاPTI اورPPP ملکر حکومت بنا لے۔ میرے حساب میں عمران خان ٹوٹ چکا ہے اور اب ہر حال میں اپنی رہائی کا متمنی و متلاشی ہے۔ اس تناظر میں مذاکرات کی کامیابی یقینی ہے، دیوار پر کندہ ہے۔
13 دسمبر کو سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد ملٹری تحویل میں اسیران کے فیصلے فوراً سنا دیئے جاتے۔ سمجھ سے بالاتر کہ ٹرائل مکمل ہوئے سال بیت چکا، آخر کو فیصلہ سنانے میں کیا چیز مانع ہے۔ شاید خیال میں کہ مذاکرات کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے فیصلہ اسکے مطابق آئے۔ مودبانہ گزارش کہ خدارا فیصلہ بمطابق ’’فاحکم بین الناس بالحق‘‘ اور درخشاں عسکری روایات کےمطابق کریں۔ میرا بیٹا بیرسٹر حسان نیازی بھی سوا سال سے قید ہے۔ اگر جرم کیا ہے تو اسے مروجہ قوانین کے مطابق سزا بھگتنی ہو گی۔ بالفرض محال اگر حسان خان کا فیصلہ کسی رشتہ ناطے یا کسی کے Colletral میں یا کسی اور خدشہ کی بنیاد پر آتا ہے تو بدقسمتی ہو گی۔ اگرحسان خان نے کسی بھی مد میں کوئی بھی جرم کیا ہے، تنصیبات پر حملہ، اُکسانا، اشتعال دلانا، تو اسے قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔ حسان خان بارے ادارے کو سب تفصیلات حقی سچی معلوم ہیں۔ اگر جرم صرف غیر قانونی احتجاج میں شرکت ہے تو اسکے بھی قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح باقی 85مقید، سب سے بڑھ کر محمود الرشید، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور عمر چیمہ سب کو انصاف چاہیے۔ گمان ہے کہ اسیران کی اکثریت بغیر کسی بڑے قصور کے پابند سلاسل ہے۔ جبکہ ہمارے ادارے کو ان سب مقید افراد کے بارے من و عن آگاہی ہے، خدارا! تجاوز نہ ہو، سب کو انصاف دیں۔ میں اپنے بیٹے کیلئے ’’انصاف کا سائل ہوں‘‘، بس!
بشکریہ روزنامہ جنگ