چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا بینک سے قرض نکلوانے کے لئے بوگس دستاویزات بنا کردینے والے پٹواری کوضمانت بعد ازگرفتاری دینے سے انکار


اسلام آد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا بینک سے قرض نکلوانے کے لئے بوگس دستاویزات بنا کردینے والے پٹواری کوضمانت بعد ازگرفتاری دینے سے انکار۔ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ جبکہ عدالت نے منشیات برآمدگی کیس کے ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری بھی خارج کردی۔جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیںکہ اگردرخواست گزار کو ضمانت دیں گے تودوبارہ جاکرایساہی کام کرے گا۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے منگل کے روز فائنل اورسپلیمنٹری کازلسٹ میں شامل 61کیسز کی سماعت کی۔

بینچ نے رانا عبدالقیوم پٹواری کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے رانا کاشف سلیم بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹا رنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس دوران سماعت پیش ہوئے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان راناصاحب پٹواری ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس کورہنے ہی دیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ مجھ سے کیس قسم کی برآمدگی نہیں ہوئی۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاس بکس بوگس ہیں اور لکھائی آپ کے ساتھ میچ کرگئی ہے پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ اگرضمانت دیں گے تودوبارہ جاکرایساہی کام کرے گا۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ معاملہ میں مداخلت نہیں کرے گی۔ درخواست زورنہ دینے کی وجہ سے خارج کی جاتی ہے۔

عدالت کاٹرائل کورٹ کو جلد ٹرائل مکمل کرنے کاحکم۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ملک جاوید اقبال وینس نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پراسیکیوشن کی جانب سے ٹرائل میں کوئی تاخیر نہیں کی جائے گی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ اُس کے مئوکل کو6ماہ سے زائد گرفتارہوئے ہوچکے ہیں۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کوحکم دیا کہ کیس کاجلد ٹرائل مکمل کیا جائے۔ جبکہ بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم فخر عالم کی جانب سے دائر ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے ارشدحسین یوسفزئی بطوروکیل پیش ہوئے جبکہ پراسیکیوٹراے این ایف ریاست پاکستان کی جانب سے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ یونیورسٹی کے باہر سے پکڑے گئے، آپ توگاڑی میں تھے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ہم چیئرمین کو کہہ دیتے ہیں وہ آپ کی درخواست پر فیصلہ کردے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجاز اتھارٹی تفتیشی افسر ہے۔

چیف جسٹس کایہ درخواست بعد ازگرفتاری ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ تفتیشی افسر ملزم کہ جانب سے فراہم کردہ یوایس بی کودیکھ کر فیصلہ کردے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تفتیشی افسر درخواست گزار کی جانب سے فراہم کردہ شواہد کاجائزہ لینے کے بعد حتمی رپورٹ میں شامل کریں۔ چیف جسٹس کاحکمنامہ میں کہنا تھا کہ اے این ایف پراسیکیوٹر نے یقین دہانی کروائی ہے کہ تحقیقاتی افسر درخواست گزار کے شواہد کودیکھیں گے جس کے بعد درخواست گزارقانون کے مطابق دادرسی حاصل کرسکتے ہیں۔ تفتیشی افسر جلد یا زیادہ سے زیادہ 15روز کے اندر چالان جمع کروائیں۔