ڈرون ۔۔۔تحریر محمد اظہر حفیظ


اکثر پڑھنے کو ملا کہ چیزیں چھوٹی یا تو دور سے نظر آتی ہیں یاپھر غرور سے۔
بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہا کہ مغرور شخص کو کس چیز یا کردار سے مماثلت دی جاسکتی ہے۔ تو عقل شریف نے بہت سوچ سمجھ کے بعد سمجھایا کہ ڈرون ایک ایسی مشین ہے جو کہ سب چیزوں کو چھوٹا دکھاتا ہے اور دور سے بھی دکھاتا ہے اور اگر یہ ڈرون بڑا ہوجائے تو اس کا غرور اور بڑھ جاتا ہے اور یہ جانیں لینے سے بھی باز نہیں آتا۔
پہلی حکومتوں میں ڈرون مختلف جگہوں پر حملے کرتے تھے اور قیمتی جانوں کا ضیاع کرتے تھے ۔ اب کے جو حکومت آئی تو ڈرون حملے تو ھٹ گئے پر کئی ڈرون حکومت میں آگئے۔ اب وہ غرور میں سب کو چھوٹا اور حقیر جانتے ہیں۔
جس کی وجہ سے عوام کو جیل میں بند کرکے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ جو ملک جتنا بڑا ہے اس کے ڈرون بھی اتنے بڑے ہیں اور اتنے ہی طاقتور بھی۔
جب بھی ظالم، مغرور انسانوں کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے ڈرون ہی لگتے ہیں۔ حالانکہ ان کو آسانی سے گرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا ایک مادی چیز ہوتی ہے اس لئے ایک اور نیا ڈرون آجاتا ہے۔ جس طرح ایک سیاستدان جیل جاتا ہے یا پھر دنیا میں سے
اس کی اگلی نسل نئے ڈرون کی طرح بازار میں تماشا لگانے آجاتی ہے۔
آج کل جو ہم خطاب اور پریس کانفرسز سن رہے ہیں پہلے اس طرح کی گفتگو اکثر گندی نالیوں یا نالوں کے گرد بیٹھے نشئی کرتے تھے جن کو عوام عرف عام میں جہاز کہتے تھے۔ کیونکہ اسوقت تک ڈرون ٹیکنالوجی آئی نہیں تھی۔ ڈرون تو کسی بھی پارٹی میں لینڈ،کرسکتا ہے یا پھر کریش لینڈنگ بھی کرسکتا ہے جہاں اسکو لینڈ کرنے کا حکم ہو۔ ہماری ادارے بھی اکثر دشمن ملک سے آئے ڈرون گرا کر خراج تحسین وصول کرتے ہیں۔ اور یہ سیاسی ڈرون بھی ان اداروں کے نشانے کو سمجھتے ہیں اور کریش ہونے سے بچنے کیلئے اپنے ریمورٹ خود انکے حوالے کردیتے ہیں ۔
یاد رکھیے ہر ڈرون کا ایک ریمورٹ ہوتا ہے جو کسی نہ کسی کے پاس ہوتا ہے اور وہ اسکو کنٹرول کرتا ہے۔ ہر ڈرون نے ایک دن کریش کرنا ہوتا ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ لیکن انسان ہمیشہ زوال میں سے گزر کر اس بات کو سمجھتا ہے۔ پر اسوقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ کیونکہ ڈرون کے کریش کرنے کے بعد اس کی بحالی ایک مشکل کام ہے اس میں ماسوائے کباڑ کے کچھ نہیں بچتا۔
اگر الله نے آپ کو انسان پیدا کیا ہے اور اشرف المخلوقات بنایا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے ہوا میں اڑنے کی اور دنیا کو چھوٹا دیکھنے کی۔ انسان سے ایک مشین بننے کی۔
ایک بات ذھن نشین کرلیں ڈرون جتنی بھی بلندی پر چلا جائے جب اس کا فیول یا بیٹری ختم ہونے پر آئے گی یا پھر وہ اپنا ٹاسک مکمل کرلے گا اس کو واپس زمین پر ہی آنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہر مغرور اور طاقتور انسان نے بھی ایک دن زمین کے نیچے ہی جانا ہوتا ہے پر جو جتنی بلندی سے گرے گا اس کو جوڑنا اور زمین کے نیچے اتارنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بے شک آپ کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔ چھوٹے پرندوں کیلئے چھوٹے کارتوس اور بڑے درندوں کیلئے بڑے اور طاقتور کارتوس استعمال ہوتے ہیں یہ تو ہر شکاری جانتا ہے تو پھر آپ کس گمان میں ہیں۔ انسان ہی رہیں ڈرون مت بنیں آپ کو سب اپنے برابر یا بڑے نظر آئیں گے۔ اسی میں دونوں جہانوں میں کامیابی کا راز ہے۔ آزما کر دیکھ لیں ۔