محبت کی ضرورت ہمیں سب سے زیادہ ہے…تحریر محمود شام


آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں میں محبت اور اطلاع بانٹنے کا دن۔ اتوار مشترکہ خاندان کی بنیاد بن رہا ہے۔ مجھ سے زیادہ کون خوش ہوگا۔ دوریاں قربتوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ اخبارات کے سنڈے میگزین۔ سنڈے ایڈیشن بھی محبت کی خوشبو بکھیرتے ہیں۔ عبدالحمید عدم نے کہا تھا:

جملہ اسبابِ جہاں پہ ہے تغیر حاوی

اک محبت ہے کہ ہر وقت جواں رہتی ہے

محبت عالمگیر ہے۔ محبت ہر گھر کی۔ ہر فرد کی۔ ہر ملک کی ضرورت ہے۔ محبت ہر ذی حس کرتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں تو حیوانوں اور نباتات پر بھی تحقیق کررہی ہیں۔ بھول جائیے یہ یومِ محبت کس نے شروع کیا۔ کیوں کیا۔ محبت کا کوئی دن نہیں ہوتا۔ محبت تو ہر صبح ہر شام کرنی چاہئے۔ محبت سے ہی کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ اس لیے ان کے لیے ہوائیں چلاتا ہے۔ میٹھا پانی برساتا ہے۔ انہیں زندگی جیسی نعمت سے نوازتا ہے۔ انہیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ ان کے لیے سورج سے فصلیں پکواتا ہے۔ زمین اس کے حکم پر ہی سونا اگلتی ہے۔ گندم۔ چاول۔ گنا۔ پھل۔ سبزیاں وہ اپنے بندوں کی محبت میں ہی اگاتا ہے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ یہ لہلہاتے کھیت۔ گنگناتے دریا۔ پہلو بچاتی ندیاں۔ چھائوں بخشتے پیڑ۔ تازگی بانٹتی ہوائیں۔ وسعتیں دکھاتے سمندر۔ یہ سب محبت کا پھیلائو ہے۔

صدیاں گواہی دے رہی ہیں۔ تصوف کی وادیوں میں کتنے عشاق فنا فی اللہ کی منزل تک پہنچے۔ فنافی المرشد۔ کیا کیا مرحلے ہیں۔ کتنے اولیاان راہوں سے گزرے، امر ہوگئے۔ محبت تجلی کا سر چشمہ ہے۔

بندوں کی اللہ سے محبت کے ساتھ ساتھ بندوں کی بندوں سے محبت۔ ایک دوسرے کا احترام۔ باپ کی شفقت۔ اولاد کے آداب۔ ماں کی مامتا۔ بیٹیوں کی ماں باپ سے لامتناہی الفت۔ بھائیوں کے درمیان مثالی یگانگت۔ انسانوں کی آپس میں دوستی۔ ہمدمی۔ دلبری۔دست گیری۔

پنجاب کے میدان۔ ریگ زار ۔بیلے۔ کیسی کیسی محبت کی داستانیں صدیوں سے سنارہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے دشت لگن کی کیسی کیسی کہانیاں اپنے سینوں میں لیے ہوئے ہیں۔ سندھ کے ریگ زار۔ کیٹیاں۔ انسانوں کے پیار کے نہ مٹنے والے قصّے آپ کی نذر کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ کے پی میں محبت کا راستہ تلواریں روک سکیں نہ بندوقیں۔ نہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن۔ بلوچستان کے خشک پہاڑوں نے اپنی ہیبت کو محبت کے راستے میں نہیں آنے دیا۔ آزاد کشمیر میں بھی محبت آبشاروں کی طرح بہتی رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں سڑکیں مسدود ہوتی رہی ہیں مگر عشق کے رستے میں برف حائل ہوئی نہ لینڈ سلائیڈنگ۔ پہاڑ۔ سر سبز وادیاں۔ نوکیلی چٹانیں۔ سر بلند چوٹیاں۔ ہری بھری فصلیں۔ سنسان بیابان۔ سب صدیوں کی محبتوں سے گونجتے ہیں۔ کہیں ماروی کے کنوئیں عاشقوں کا مرکز ہیں۔ کہیں پیار کرنے والوں کے مقبرے نسل در نسل محبت بانٹتے ہیں۔محبت ناکام رہتی ہے۔ صرف نظر آنے کی حد تک۔ عاشق محبوب تو کامیاب ہوتے ہیں۔ قرن ہاقرن جن کے گیت گونجتے ہیں۔ جن کے نام ہر نسل کی زبان پر ہوتے ہیں۔ ان جیسا کامران کون ہوگا۔

ہم معزز عشاق سے جینے کے طریقے سمجھتے ہیں۔ آزادی کا سبق سیکھتے ہیں۔ جبر و استبداد کی مزاحمت کا درس لیتے ہیں۔ یہ سماجی قیود، قبائلی حدود سے ماورا ہونے کے راستے دکھاتے ہیں۔ عشق کی سچی کہانی کہیں کی بھی ہو۔ پاکستان ۔ بھارت۔ چین۔ مصر۔ تیونس۔ ملائشیا۔ انڈونیشیا۔ برما۔ نیوزی لینڈ۔ برطانیہ۔ فرانس سب آگے بڑھنے۔ وقت کے فرعونوں سے ٹکرانے کا ولولہ دیتی ہیں۔ سب سے زیادہ عشقیہ داستانیں اور رومانی ناول ہی پڑھے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ فلمیں بھی رومان بھری مقبول ہوتی ہیں۔

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

رومیؔ کا عشق تو اس وقت پوری دنیا میں یگانگت کی خوشبو پھیلارہا ہے۔

جسم خاک از عشق بر افلاک شد

کوہ در رقص آمدو چالاک شد

رومیؔ کے عاشق اقبالؔ بھی عشق کو زندگی کا محور و مرکز مانتے ہیں۔

عشق کے مضراب سے نغمۂ تار حیات

عشق سے نور حیات۔ عشق سے نار حیات

اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود

عشق سرتاپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

عشق ۔محبت۔ الفت۔ یگانگت۔ یکجہتی ہی معاشرے کو زندہ اور توانا رکھتے ہیں۔ عشق کے اپنے آداب ہیں۔ اپنے مرحلے ہیں۔ اپنے پڑائو ہیں۔ اپنی منزلیں ہیں۔ ہر علاقے ہر نسل میں عشق کے انداز مختلف ہیں۔ ہر سماج میں محبت کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ مغرب میں عشق کی کلی کچھ اور ادا سے کھلتی ہے۔ مشرق میں عشق کا ماہتاب کچھ اور رُخ اختیار کرتا ہے۔ ہر ملک۔ ہر شہر کی تہذیب ۔ تمدن۔ ثقافت عشق کو اپنا اپنا مزاج۔ اپنا لباس دیتے ہیں۔ مگر یہ کسک محسوس ہر جگہ کی جاتی ہے۔ یہ تڑپ ہر دل میں ہوتی ہے۔ یہ خلش ہی ادبیات عالیہ کا سر چشمہ رہی ہے۔ اُردو۔ پنجابی۔ سرائیکی۔ سندھی۔ پشتو۔ بلوچی۔ براہوی۔ کشمیری۔ بلتی۔ شینا میں عظیم تخلیقات نے عشق سے ہی جنم لیا ہے۔ عشق اور عقل ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں۔ اقبالؔ عقل کو تو کبھی تنہا چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عشق کو ترک کرنے کے لیے کبھی نہیں کہتے۔ اب نئی ٹیکنالوجی واٹس ایپ۔ موبائل فون۔ فیس بک۔ انسٹا گرام۔ عشق کے نئے وسیلے بن رہے ہیں۔

اپنے لوگوں سے محبت ہی چین میں مسلسل ترقی کا راز ہے۔محبت ہم سب کی ضرورت ہے۔ دن بے شک غیر مسلم مناتے ہوں۔ کافر اسے ویلنٹائن کہتے ہوں۔ مگر اس محبت۔ الفت۔ عشق۔ کی ضرورت سب سے زیادہ ہم پاکستانیوں کو ہے۔ ہم کہیں فرقہ پرستی۔ کہیں لسانی۔ کہیں نسلی۔ کہیں قبائلی۔ کہیں سیاسی نفرت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ ہم غیر مسلموں کی ساری ایجادیں۔ گاڑیاں۔ بسیں۔ ہوائی جہاز۔ موبائل فون۔ انٹرنیٹ بخوشی استعمال کررہے ہیں۔ ایک دن محبت کے لیے مخصوص کرنے پر کیوں ناراض ہوتے ہیں؟ اس دن کو ہم اپنے شعائر۔ اپنی تہذیب۔ اپنے سماج۔ اپنے رواج کے مطابق منائیں۔ اہل مغرب کی محبت ان کے طور طریقے ان کو مبارک۔ ہمارا عشق۔ ہماری محبت ہمارے تمدن کے مطابق۔ ہمیں طاقت عطا کرتی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ کرناٹک میں برقع پہنے ’مسکان‘ کا قلندرانہ نعرہ ’اللہ اکبر‘ عشق کا ہی مظہر ہے،جس نے ’اللہ اکبر‘ کے بھی نئے مدارج اور نئے پیغام متعین کردیئے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ