اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان کے سابق وفاقی وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید نے اسلام آباد میں ایک کانفرنس میں فلسطین/مشرق وسطی کے امن کے لیے 5 نکاتی ایکشن پلان پیش کیا ہے ۔مشاہد حسین نے آئی پی آئی کانفرنس سے خطاب میں تجویز دی کہ پہلے قدم کے طور پرعرب/او آئی سی کا ہنگامی سربراہی اجلاس 11 نومبر کو بلایا جائے تاکہ فلسطینی عوام کی تکالیف کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور بین الاقوامی لیڈروں کا وفد تشکیل دیا جائے جس میں عالمی جنوبی اور یورپ کے رہنما بھی شامل ہوں گے۔
سعودی عرب، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی افریقہ، الجزائر اور برازیل کے علاوہ ناروے اور آئرلینڈ کے وزیر اعظم پر مشتمل وفد کو فوری طور پر واشنگٹن کا دورہ کرنا چاہیے اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر کے ان پر زور دینا چاہیے کہ وہ صریح طور پر اسرائیل کی حمایت کرنے والی یک طرفہ امریکی پالیسی کو واپس لے، جنگ بندی کر دیں۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ترکیہ، پاکستان اور انڈونیشیا کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اجازت ملنے کے بعد غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے امن اور انسانی امداد کے لیے ایک مشترکہ نیول فلوٹیلا تشکیل دیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس بحری اتحاد کے ذریعے غزہ میں محصور فلسطینیوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے ادویات، خوراک اور امدادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے میں مدد ملے۔ اس سے مظلوم فلسطینی عوام کو ایک طاقتور اور مثبت پیغام جائے گا کہ امت مسلمہ کوئی کمزور وجود نہیں ہے، بلکہ اس کے پاس ٹھوس اقدامات کرنے کا وژن اور سیاسی عزم ہے مشاہد حسین سید کے بقول تیسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ 2019 میں ترک صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر کے مشترکہ اقدام کو یاد کرتے ہوئے ‘خیالات اور بیانیے کی جنگ’ میں امت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے عالمی میڈیا کے قیام کے فیصلے کو عملی جامہ پہنایاجائے۔انھوں نے کہا کہ غزہ کی موجودہ صورت حال میں مغربی میڈیا کا تعصب اور جانبداری کھل کر سامنے آگئی۔
مسلم برادری میں سے جید صحافی، دانشور، ماہرین تعلیم اور تھنک ٹینکس ‘خیالات کی جنگ’ میں سچائی اور حقائق پر مبنی بیانیہ تیار کرنے اور اسے موثر انداز سے پیش کرنے میں اہنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کا مسلم گلوبل میڈیا مسلم دنیا کی عوامی امنگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین، کشمیر، اسلامو فوبیا اور روہنگیا پر رائے عامہ ہموار اور مغربی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ چوتھا دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ، او آئی سی فوری طور پر غزہ اور لبنان کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے ایک فلسطینی تعمیر نو فنڈ قائم کرے۔سینیٹر مشاہد حسین نے کہا پانچویں قدم کے طور پر نیورمبرگ طرز کا ایک بین الاقوامی جنگی جرائم کا ٹریبونل قائم کیا جائے ،اسرائیل کے سیاسی اور فوجی رہنماں پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلایا جائے ۔ اسرائیلی جنگی جرائم بشمول فلسطین کے خلاف جارحیت کی کارروائیوں کے لیے معروف وکلا اور ایک عالمی گروپ تشکیل دیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دہرے معیارات رکھنے اور اخلاقی روایات نہ نبھانے پر مغربی ممالک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک جنگی جرائم میں اسرائیل کی مدد اور حوصلہ افزائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ زیادہ تر مسلم حکومتیں بھی خوف یا مصلحت کے باعث اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کی حمایت میں موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔مشاہد حسین سید نے کہا کہ مسلم قائدین کو اب باتوں سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔