ایس ڈی پی آئی کی 4 روزہ پائیدار ترقیاتی کانفرنس میں پائیدار ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز پر غور


اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان درست سمت میں گامزن ہے، جس کا ثبوت مہنگائی پر کنٹرول، زراعت کے شعبے میں نمایاں ترقی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہے، اقتصادی ترقی اور غذائی تحفظ کیلئے ماحولیاتی سلامتی بہت اہم ہے اس میں بگاڑ سے ملک میں مختلف بحرانوں کا خدشہ ہے۔اس موضوع پرمباحثوں اور سفارشات سے پاکستان میں پائیدار ترقی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ باتیں مقررین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام چار روزہ پائیدار ترقیاتی کانفرنس کی اختتامی نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ پٹرولیم اور آبی وسائل کے وزیر مصدق ملک نے کہا کہ مہنگائی میں کمی، عوام کی زندگی میں بہتری، اور غربت میں کمی حکومت کی ترجیحات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ی ڈی پی کو 2.4 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد تک لے جانا حکومت کا ہدف ہے، جبکہ زراعت کا شعبہ 6.3 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے، جس سے دیہی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے۔ انہوں نے سماجی تحفظ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور PSDP میں اضافے کو نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیا۔وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینہ خورشید عالم نے کہا  کہ ہماحولیاتی تبدیلی کی وزارت اور SDPI کی شراکت سے نئی پالیسیاں تشکیل دینے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ COP-29 میںہم ماحولیاتی مالی معاونت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور متاثرہ برادریوں کی استعداد کار میں اضافے کیلئے آواز اٹھائیں گے اور اس کانفرنس کی سفارشات کو بھی پیش کریں گے۔ کانفرنس میںماہرین، متعلقہ حکام اور پالیسی سازوں نے مختلف امور پر تجاویز پیش کیں۔ قابل تجدید توانائی 2024 کے سالانہ جائزہ کے حوالے سے منعقدہ نشست میں توانائی کے ماہرین نے بڑھتی ہوئی سولر نیٹ میٹرنگ کو قومی گرڈ کے لئے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اس موقع پرایس ڈی پی آئی کے انجینئر احد نذیر نے قابل تجدید توانائی 2024 کا سالانہ جائزہ پیش کیا۔

یونائیٹڈ انرجی پاکستان کے سیکریٹری تنویر افضل مرزا نے نجی شعبے کی جانب سے ہوا کی توانائی کے شعبے میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو خوش آئند قرار دیا۔نیپرا کے سابق چیئرمین توقیر ایچ فاروقی نے توانائی کے موجودہ نظام کو غیر پائیدار قرار دیتے ہوئے نجی شعبے کو مزید سہولت دینے کی تجویز دی۔ دانیال صدیقی نے CTBCM کے فوری عمل درآمد کو سرمایہ کاری اور پاکستان کے سبز مالیاتی اہداف کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا۔میناماتا کنونشن پر عمل درآمد کے حوالے سے سیشن میں ماہرین نے رنگ گورا کرنے کرنے والی برآمد شدہ مصنوعات میں پارے کی زیادہ مقدار پر تشویش ظاہر کی۔ ایس ڈی پی آئی کی ڈاکٹر رضیہ صفدر نے کہا کہ 2021 کے معاہدے کے تحت 1 پی پی ایم سے زیادہ پارے والے کاسمیٹکس کی برآمد پر پابندی کو سختی سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔جعلی خبریں اور سچائی کے موضوع پر سیشن میں سینئر صحافی مظہر عباس نے جعلی خبروں کے عوام پر منفی اثرات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈس انفارمیشن کا مقصد ذاتی ایجنڈے کو بڑھانا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کا کام تحقیق کر کے مصدقہ خبر دینا ہے۔ اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ صحافی اور ریسرچر کا کام ایک جیسا ہے اگر حقائق مصدقہ ہوں تو اس کو اولیت دینا چاہئے۔ میڈیا لیب کے اسد بیگ نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا منافعاتی ماڈل جعلی خبروں کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔

زیب انسابرکی نے کہا کہ پسند سے ہٹ کر بات کی جائے تو اسے بکاو سمجھا جاتا ہے ۔ مقررین نے کہا کہ لاہور والے واقعے میں میڈیا نے صرف احتجاج رپورٹ کیا لیکن کسی نے متاثرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں غذائی نظام کی بہتری کے موضوع پر سیشن میں ڈبلیو ایف پی کے نمائندے ایرک کینافک اور ایف اے او کی فلورنس رولے نے خواتین کیلئے زرعی وسائل تک رسائی کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔پاکستان میں مشترکہ فلاحی اقدامات کے حوالے سے ماہرین نے کہا کہ مقامی ضروریات کے ساتھ فنڈنگ کو ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنانا ضروری ہے۔کاربن سرحدی ایڈجسٹمنٹ میکانزم کے حوالے سے پالیسی ڈائیلاگ میں شرکانے اس کو پاکستانی صنعتوں کیلئے بین الاقوامی مسابقت کا ذریعہ قرار دیا۔ GIZ اسلام آباد کی سوبیہ بیکر نے پاکستان کی پائیدار ترقی کے سفر میں جرمنی کی 500 ملین یورو سے زائد کی سرمایہ کاری پر روشنی ڈالی۔

ماحولیاتی تصادم اور سماجی مکالمہ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں مقررین نے ماحولیاتی سلامتی میں بگاڑ کو اقتصادی ترقی اور غذائی تحفظ میں رکاوٹ قرار دیا۔پاکستان میں غذائی نظام کی بہتری پر ہونے والے سیشن میں ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے نمائندے ایرک کینافک نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو اپنے غذائی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے او پاکستان کی فلورنس رولے نے زراعت کے شعبے میں خواتین کو درپیش مشکلات اور زرعی وسائل تک ان کی محدود رسائی پر روشنی ڈالی۔مشترکہ فلاحی اقدامات کے حوالے سے ماہرین نے پاکستان میں فلاحی سرگرمیوں کو موثر اور مقامی ضروریات کے مطابق بنانے پر زور دیا۔کاربن سرحدی ایڈجسٹمنٹ میکانزم کے حوالے سے پالیسی ڈائیلاگ میں مقررین نے کہا کہ یہ میکانزم پاکستانی صنعتوں کو بین الاقوامی سطح پر مسابقت میں شامل کرنے کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی تصادم اور سماجی مکالمہ کے سیشن میں مقررین نے ماحولیاتی سلامتی کو اقتصادی ترقی اور غذائی تحفظ کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بگاڑ سے ملک میں مختلف بحرانوں کا خدشہ ہے۔٭