بھارتی حکومت شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرسکتی ہے ، ہندوستان ٹائمز

نئی دہلی(صباح نیوز) بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو  بنگلہ دیش کے حوالے کرسکتی ہے ۔ ہندوستان ٹائمز میں پروفیسر پربھاس رنجن کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل (آئی سی ٹی) کے چیف پراسیکیوٹر کی جانب سے شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس لانے کا قانونی عمل شروع ہونے کے بعد اس مطالبے نے ٹھوس قانونی شکل اختیار کر لی ہے۔ شیخ حسینہ کی قیادت میں اس وقت کی حکومت نے 2010 میں یہ ٹریبونل قائم کیا تھا۔طلبہ کی کوٹہ مخالف تحریک کو طاقت کے ذریعے دبانے کے لیے حسینہ حکومت نے  بڑے پیمانے پر قتل عام کا سہارا لیا۔ اس کے باوجود، شیخ حسینہ کو بالآخر طلبا کی زبردست عوامی بغاوت میں استعفی دینے اور ہندوستان فرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ فسطائیت اور امتیازی سلوک کے خلاف اور جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئے ہزاروں طلبا اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔شیخ حسینہ کے خلاف بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ اس سابق وزیراعظم کے خلاف قتل، تشدد اور گمشدگی کے مختلف الزامات میں ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات درج ہیں۔ ایسے میں اگر بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے ہندوستان سے درخواست کرتا ہے تو نئی دہلی کا قانونی راستہ کیا ہوگا؟ او پی جندال گلوبل یونیورسٹی کے جندل گلوبل لا اسکول کے پروفیسر پربھاس رنجن نے  ہندوستان ٹائمز میں اس بارے میں ایک طویل مضمون لکھا ہے۔آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے 2013 کے معاہدے پر انحصار کر سکتا ہے۔ معاہدے کے آرٹیکل 1 میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت اپنے اپنے علاقوں میں صرف ان افراد کو حوالے کرنے کے پابند ہیں جو ایک قابل حوالگی جرم (ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا ہندوستانی اور بنگلہ دیشی قوانین کے تحت کم از کم ایک سال کی قید ہے) کا مرتکب ہوا ہے۔ لیکن اس دفعہ کا اطلاق ان افراد پر بھی ہو گا جن کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔بنگلہ دیشی عدالت میں ابھی تک حسینہ کو مجرم قرار نہ دیے جانے  پر بھی ان کی حوالگی کی جا سکتی ہے۔ اس پر ان جرائم کا الزام لگانا ہی بھارت سے حوالگی کی کارروائی شروع کرنے کے لیے کافی ہے۔