ایک کاغذ پر یونیورسٹی بنادو، یہاں پر یونیورسٹیاں بکتی ہیں، امریکہ سے زیادہ یونیورسٹیاں پاکستان میں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہمارا صرف یہ مقصد ہے کہ تمام یونیورسٹیاں قانون پرعمل کریں، ہم قانون نہیں بناتے قانون کوئی اوربناتا ہے۔ کسی کوتعلیم کے شعبہ کی پراوہ نہیں، سیاسی کیس ہوتا توسارا میڈیا ٹھک کرکے آجاتا ، اس کیس کی کسی میڈیا کوبھی فکر نہیں، تعلیم ملک کانظام تبدیل کرسکتی ہے۔ قومیں تعلیم کی بنیاد پر اپنی تقدیر بدلتی ہیں، دنیا میں ساری مخلوق ایک جیسی ہے۔بھارت نے دنیا میں آئی ٹی کے شعبہ میں پر قبضہ کرلیا ہم کہیں بھی نہیں۔ کیا قانون پر عملدرآمد کے لئے صدرکی منظوری درکار ہے۔ جیولین تھرو پھینکنے والا ارشد ندیم بھی خودہی اپنی محنت سے گیا وہ کسی اکیڈمی سے نہیں گیا، بس اتنی بڑی ، بڑی عمارتیں بنادو۔ ایک کاغذ پر یونیورسٹی بنادو، یہاں پر یونیورسٹیاں بکتی ہیں، امریکہ سے زیادہ یونیورسٹیاں پاکستان میں ہیں، تعلیم کاشعبہ نظرانداز کیا گیا ہے، سرکارپرجرمانہ کروں گاکہ وہ ہمیں سنجیدہ لینا شروع کردے۔

وزیر تعلیم کاکیا کام ہے، کسی کوکام کرنے کاشوق ہی نہیں بس فائلیں آگے پیچھے جارہی ہیں۔ جبکہ عدالت نے سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی کوحکم دیا ہے کہ وہ حیدرآباد انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈمیجنمنٹ سائنسزکے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے لئے صدر مملکت سے ملاقات کریں۔ جبکہ عدالت نے نیشنل فرٹیلائزرز کارپوریشن انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر اخترعلی ملک کو فوری طور پر عہدے کا چارج چھوڑنے کاحکم دے دیا۔ عدالت نے قراردیا کہ ڈاکٹر اخترعلی ملک نے ثابت کیا کہ وہ قانون سے بالاترہیں، حکومت اورایچ ای سی کامذاق اڑارہے ہیں، ڈاکٹر اخترعلی ملک کاعہدے پر برقراررہنا غیر قانونی ہے، ہم انہیں عہدہ خالی کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ جلد ازجلد نیاوائس چانسلر تعینات کیا جائے،جب تک مستقل وائس چانسلرتعینات نہیں ہوتااس وقت تک وفاقی حکومت اور ایچ ای سی ایکٹنگ چارج کے حوالہ سے فیصلہ کریں۔سرکاری شعبہ کی یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز اوردیگر اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے معاملہ پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روزآئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت آل پبلک یونیورسٹیز پی بی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن (اپوبٹا)کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست میں وفاق پاکستان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس جبکہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر ضیا القیوم، سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق اوردیگر حکام پیش ہوئے۔ درخواست گزارکی جانب سے محمد عمر اعجاز گیلانی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہاکہ ایک، ایک کرکے کیس چلاتے ہیں باقی لوگ بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس کاایچ ای سی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیس ہم کیوں چلارہے ہیں، کیاشوق اوردلچسپی کیس چلانے سے ہے، اگرکسی قوم کواپنی تقدیر بدلنی ہوتووہ کیا کرے، کیا چیز ہے جواسے کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ متعلقہ شخص خود کام نہیں کرے گااوردوسروں پر ڈال دے گا، اگر رول آف لاء دنیا میں بھی خراب بھی ہوجائے تویونیورسٹی سے اس کاکیا تعلق ہے، قومیں تعلیم کی بنیاد پر اپنی تقدیر بدلتی ہیں، دنیا میں ساری مخلوق ایک جیسی ہے، کہیں تیل ہے ٹھیک ہے نہیں ہے تو نہیں ہے، تعلیم سے تقدیر بدلتے ہیں، بھارت نے دنیا میں آئی ٹی کے شعبہ میں پر قبضہ کرلیا ہم کہیں بھی نہیں، اس شعبہ میں عوام کا پیسہ ملوث ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر کسی یونیورسٹی کے بورڈ کی میٹنگ سال میں ایک مرتبہ ہونی ہے تواسے کریں جو نہیں کرتااسے فوری نکالیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی نظام ہے ہی نہیں اس لئے ہم اس معاملہ میں پڑے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارا صرف یہ مقصد ہے کہ تمام یونیورسٹیاں قانون پرعمل کریں، ہم قانون نہیں بناتے قانون کوئی اوربناتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان میں شعبہ تعلیم پر جو بھی 2یا3فیصد رقم خرچ ہوتی ہے اس میں ہرروپیہ قیمتی ہوتا ہے جوعوامی خزانے سے دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تدریسی اورسیکرٹریٹ اسٹاف کی کوئی مخصوص شرح ہونی چاہیئے، تھوڑا بہت اوپرنیچے ہونا چاہیئے، پروفیسر بیرون ملک خوداپنے لئے چائے بناتاہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کاطلباء کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا، نائب قاصد یا ڈرائیور بھرتی کرنے سے طلباء کوکوئی فائدہ نہیں ہورہا، شاید ہی کسی یونیورسٹی کے پاس اخراجات کے مقابلہ میں زیادہ پیسے ہوتے ہوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی کوتعلیم کے شعبہ کی پراوہ نہیں، سیاسی کیس ہوتا توسارا میڈیا ٹھک کرکے آجاتا ، اس کیس کی کسی میڈیا کوبھی فکر نہیں، تعلیم ملک کانظام تبدیل کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بھارتی آئی ٹی یونیورسٹیوں کومعیار اتنا اوپر چلا گیا ہے کہ فوراً کمپنیاں گریجوایٹس کواٹھالیتی ہیں، موٹی ، موٹی باتیں ہیں کہ ہم صیح سمت میں چل پڑیں۔ دوران سماعت حیدرآباد انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈمیجنمنٹ سائنسز کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر سعیدالدین نے بتایا کہ بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے لئے سمری صدرمملکت کوبھجوائی ہوئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ کیا قانون پر عملدرآمد کے لئے صدرکی منظوری درکار ہے۔ملک جاوید اقبال کاکہناتھاکہ سمری حتمی منظوری کے لئے صدررملکت کو بھجوائی ہوئی ہے۔

سیکرٹری تعلیم کاکہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز کی منظوری صدر مملکت کوبھجوائی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بورڈآف گورنرز کب سے فارغ بیٹھا ہے۔ چیف جسٹس کاوائس چانسلر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ دنیا کے سب سے اچھے آدمی ہیں، کب سے بورڈ آف گورنرز خالی ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر بورڈ آف گورنرز نہیں بنانا تویونیورسٹی بند کردیں،یونیورسٹی کاغذ پر ہے، ان کوپیسے خرچ کرنے کے لئے بھرتی کیا ہوا ہے۔ ملک جاوید اقبال وینس نے بتایا کہ ابھی تک یونیورسٹی میں طلباء موجود نہیں، داخلوں کااشتہار دیا ہے اورآج آخری تاریخ تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سالانہ یونیورسٹی پر کتنا خرج ہورہا ہے۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھا کہ سالانہ 115ملین آپریشنل خرچ ہے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ 2021میں یونیورسٹی بنی، تین سال ہوگئے چلانی نہیں توبند کردیں، عوام کے پیسے خرچ کررہے ہیں، نہ اہلیت ہے، نہ سوچ ہے اور نہ پیسے ہیں، بلڈنگ بنی ہے کہ نہیں کیا یہ ہوامیں ہے۔ سیکرٹری تعلیم کاکہنا تھا کہ یونیورسٹی کے لئے 100ایکڑزمین الاٹ ہو گئی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز پہلے بننا چاہیے تھا، پیسے خرچ ہورہے ہیں وائس چانسلر کی تنخواہ جارہی ہوگی، تین سال ہو گئے ابھی کچھ کیا ہی نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک کاغذ پر یونیورسٹی بنادو، یہاں پر یونیورسٹیاں بکتی ہیں، امریکہ سے زیادہ یونیورسٹیاں پاکستان میں ہیں، تعلیم کاشعبہ نظرانداز کیا گیا ہے،

سرکارپرجرمانہ کروں گاکہ وہ ہمیں سنجیدہ لینا شروع کردے، اگر انگریزی پڑھنی نہیں آتی توہم کیا کریں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیکرٹری تعلیم کب صدر مملکت سے ملے، سیکرٹریٹ سے اگلادروازہ ہے جاکرکھٹکھٹائیں اوران سے ملیں، کسی کوکام کرنے کاشوق ہی نہیں، آپ کے دفتراورایوان صدر کے درمیان کتنا فاصلہ ہے،آپ عوام کے نوکر ہیں، جار کرصدر مملکت کے پاس بیٹھ جائیں اورکہیں جب تک بورڈ آف گورنرز کی منظوری نہیں دیں گے میں نہیں جائوں گا، کاغذ پریونیورسٹی بناکربیٹھے ہوئے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ طلباء اورسرکاری خزانے کو نقصان ہورہا ہے، کہیں گورنر کامسئلہ ہے ، کہیں وزیر اعلیٰ کامسئلہ ہے، انا بھی چل رہی ہے۔تدریسی عملہ کے مقابلہ میں سیکرٹریٹ عملہ زیادہ ہے۔ شہروں میں یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولے جارہے ہیں، اس کی الگ کہانی ہے، تین سال میں کتنا پیسہ گیا ہوگا معلوم نہیں، وائس چانسلر اپنی تنخواہ کے لئے کیا جواز پیش کرتے ہیں معلوم نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وزیر تعلیم کاکیا کام ہے، کسی کوکام کرنے کاشوق ہی نہیں بس فائلیں آگے پیچھے جارہی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کم ازکم پہلی اینٹ توصیح رکھیں، عملہ کیوں بھرتی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 25ڈیپارٹمنٹ بنارہے ہیں اپنے بندے فٹ کرلیں گے، یہ مجرمانہ غفلت ہے کسی کوشرم بھی نہیں آتی، پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صدر خود کچھ نہیںکرتے ان کاعملہ ہی کام کرتاہوگا۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جیولین تھرو پھینکنے والا ارشد ندیم بھی خودہی اپنی محنت سے گیا وہ کسی اکیڈمی سے نہیں گیا، بس اتنی بڑی ، بڑی عمارتیں بنادو۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیسے کنٹرولر امتحانات، ڈائریکٹر فنانس اور رجسٹرار کے یونیورسٹی چلارہے ہیں، دنیا بھر کی چیزیں لکھ دیں سوائے قانون کے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ بنیادی باڈی بورڈ آف گورنرز ہے جب تک وہ نہیں ہو گی یونیورسٹی فنگشنل نہیں ہوسکتی۔جبکہ دوران سماعت عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر نیشنل فرٹیلائزرز کارپوریشن انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر اخترعلی ملک روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس کاڈاکٹر اخترعلی ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ کوکس نے تعینات کیاہے۔ اس پر ڈاکٹر اخترعلی ملک کاکہناتھاکہ مجھے پرنس محمد عیسیٰ جان بلوچ نے تعینات کیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کوئی پرنس نہیں ہے، پاکستان 1947میں آزاد ہوگیاتھا۔ ڈاکٹر اخترعلی ملک کاکہنا تھا کہ مجھے پرنس عیسیٰ جان بلوچ نے کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔چیف جسٹس کاسیکرٹری تعلیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ انہیں کس پرنس نے تعینات کیاہے۔ چیف جسٹس کاڈاکٹر اخترعلی ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے، میراخیال ہے ہمیں آپ پر توہین عدالت لگانی چاہیئے۔ ڈاکٹر اخترعلی ملک نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 6لاکھ روپے ماہانہ ہے۔

چیف جسٹس نے ڈاکٹر اخترعلی ملک سے سوال کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے۔ اس پر ڈاکٹر اخترعلی ملک کاکہنا تھا کہ میری عمر65سال 3ماہ ہوگئی ہے جبکہ 65سال تک کی عمر کاشخص وائس چانسلر رہ سکتا ہے۔ ڈاکٹر اخترعلی ملک کاکہنا تھا کہ میں صدر کی منظور ی سے کام کررہا ہوں، میں نے 12سال سے سرکاری گھر استعمال نہیں کیا، میں ملتان میں اپنے گھر میں رہتا ہوں۔ چیف جسٹس کاکہناتھاکہ ہم آپ کی تنخواہ بند کردیتے ہیں اور آفس خالی کرنے کاحکم دیتے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ آپ کوآپ کاماتحت کیسے ایکسٹینشن دے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ پاکستان میں کرپشن کاکلاسک کیس ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا عیسیٰ جان بلوچ پاکستان کے قانون سے بالاتر ہیں، ہم توہین عدالت کانوٹس دیں گے، فوری عہدہ چھوڑیں، غیر قانونی طور پر عہدے پر قابض ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ آج اپنی پوزیشن چھوڑ دیں ہم کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔ اس پر ڈاکٹر اخترعلی ملک کاکہناتھاکہ اپنی پوزیشن پر برقراررہنا چاہتا ہوں۔ ملک جاوید اقبال وینس نے بتایا کہ ڈاکٹر اخترعلی ملک کی تنخواہ چل رہی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 2018کے جو تنخواہ ملی وہ واپس کریں۔ اس دوران ڈاکٹر اخترعلی ملک نے ججز کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہامیں نے خدمت کی ہے، ہم عزت دار لوگ ہیں۔

اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور جاہلوں والی باتیں کررہے ہیں، آپ کبھی اس قابل تھے ہی نہیں کہ تعینات ہوتے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ پولیس والے کوبلائیں گے جاکر کرسی پر بیٹھ جائیں،کیسے بیٹھے ہوئے ہیں یہ لوگ، کوئی قبضہ گروپ ہے ، 6لاکھ کما رہے ہیں۔ کیا ہورہا ہے۔ ملک جاوید اقبال وینس کاکہناتھا کہ مقدمہ بازی کی آڑ میں کام کررہے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ محمد عیسیٰ جان بلوچ نے توسیع دی کہ آئندہ چانسلر کی تقرری تک تعینات رہیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میراخیال ہے یہ براہ راست دکھانا چاہیئے یہ عوامی مفاد کامعاملہ ہے، 6لاکھ کمارہا ہے وہ کیوں چھوڑے گا، عدالتیں انصاف دینے کے لئے کھلی ہوئی ہیں، یہ حکومت کی کوتاہی ہے، آپ سرکار ہیں، ایک آدمی سرکار پر حاوی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کسی کوتعینات کریں اور معاملات کودرست کریں، 5ہزارطلباء پڑھتے ہیں پتا نہیں کیسے ڈگریاں بٹتی ہوں گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جووائس چانسلر کی مدد کرنے آیا تھا وہ بھی ایکٹنگ چارج پر ہی ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے مدد کے لئے آنے والے شخص کو بلا کرپوچھا کہ ڈاکٹر اخترعلی ملک قانونی طور پرعہدے پر موجود ہیں یا غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔ اس پر اس شخص نے بتایا کہ قانونی طور پر عہدے پر موجود ہیں اوراس حوالہ سے قانون بھی پڑھ کربتایا۔

اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کی قابلیت یہ ہے تولکھ دیتے ہیں آپ کوبھی ہٹادیں، وہ توجارہے ہیں شاید آپ بھی اُن کے ساتھ جائیں، ادارے کے ساتھ نہیں وی سی کے ساتھ وفاداری ہے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈاکٹر اخترعلی ملک2012میں 4سال کے لئے وائس چانسلر تعینات ہوئے، 2016میں مدت ختم ہوئی، اس کے بعد یونیورسٹی سینیٹ نے قراردادکے زریعہ 2سال کی مدت میں توسیع د ی جو2018میں ختم ہوگئی اس کے بعد غیر قانونی طور پر وائس چانسلر کے عہدے پر قابض ہیں، ڈاکٹر اخترعلی ملک اپنی عہدے پر موجودگی کی کوئی توجیح پیش نہیں کرسکے، یہ حیران کن بات ہے کہ انہیں کیوں عہدے سے نہیں ہٹایا گیا، وہ ہرجائز ناجائز حربہ استعمال کرکے عہدے پر برقراررہنا چاہتے ہیں، ہائر ایجوکیشن کمیشن اوروفاقی حکومت بھی اِن کے سامنے بے بس ہے جوکہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ ڈاکٹر اخترعلی ملک نے ثابت کیا کہ وہ قانون سے بالاترہیں، حکومت اورایچ ای سی کامذاق اڑارہے ہیں، ڈاکٹر اخترعلی ملک کاعہدے پر برقراررہنا غیر قانونی ہے، ہم انہیں عہدہ خالی کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، ڈاکٹر اخترعلی ملک نے اپنے گھر کو وی وی آئی پیز کے لئے ریسٹ ہائوس قراردیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جلد ازجلد نیاوائس چانسلر تعینات کیا جائے،جب تک مستقل وائس چانسلرتعینات نہیں ہوتااس وقت تک وفاقی حکومت اور ایچ ای سی ایکٹنگ چارج کے حوالہ سے فیصلہ کریں۔