پاکستان کا بہتر مستقبل اپنے لیے ایک واضح سمت متعین کرنے پر منحصر ہے: سینئر سفارتکاروں کی رائے

اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان کی مستقبل کی ترقی کا دارومدار  ایک ایسی واضح سمت متعین کرنے پر  منحصرہے جس کے ہرپالیسی ساز فیصلے میں قوم سازی کا عنصر مثبت طریقے سے مربوط ہو۔  ایسی سمت  کا تعین ملک کے کورننس کے بحران کو حل کرنے، نظریاتی اتحاد کو فروغ دینے اور سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں  ملک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو گزشتہ سات دہائیوں سے پیش آنے والے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پالیسی فیصلوں اور اصلاحات میں یکجہتی اور قومی سطح پر ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔  یہ پیغام سینئر سابق سفارت کاروں،  ایمبیسیڈر (ر) سردار مسعود خان، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر، اور ایمبیسیڈر (ر) مسعود خالد نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی نیشنل ایڈوائزری کونسل  کے سالانہ اجلاس کے دوران دیا۔  فورم کی نظامت   وائس چئیرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین نے کی جبکہ صدارت  ادارے کے چئیرمین خالد رحمن نے کی۔ اس سالانہ اجلاس کا مقصد  آئی پی ایس کی تحقیقی سرگرمیوں اور قومی  مسائل کے بارے میں   تجربہ کار پریکٹیشنرز سے معلومات، مشورے اور رہنمائی حاصل کرنا  تھا۔ سفیر مسعود خالد نے پاکستان کی پالیسی سازی کے بحران پر روشنی ڈالی اوراس بات پر زور دیا کہ ”  کمروں میں  بیٹھ کر میں بنائی گئی پالیسیاں” کمزور ہم آہنگی اور غیر موثر نفاذ کا باعث بنتی ہیں۔ انہوں نے تزویراتی وضاحت کی عدم موجودگی، اور تبدیلی کے خواہاں اصلاح پسندوں اوررائج  نظام کے حامیوں کے درمیان جاری  اندرونی تنا کو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر اجاگر کیا۔ ان کے مطابق یہ رسہ کشی پاکستان کے پالیسی سازی کے فریم ورک کے اندر ایک گہرے بحران کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری   (سی پیک)کی مثال پیش کی۔ اگرچہ سی پیک  ترقی کا ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے، لیکن  مربوط اسٹریٹیجک پالیسیوں کی کمی  اسکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔  انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر  اس معاملے پر توجہ اور تندہی سے کام  نہ کیا گیا تو یہ  بہترین  موقع  ضائع بھی ہو سکتا ہے، جو کہ وسیع  سطح پر پالیسی کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جو  کاروباوں،  اور بالخصوص چینی سرمایہ داروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

سفیر خالد نے سول سوسائٹی، خاص طور پر ریسرچ کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ زیادہ فعال طریقے سے منسلک رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی رابطہ کاری بہتر پالیسی  سازی  کی رہنمائی میں مدد دے سکتی ہے، جو بالآخر ایک زیادہ مربوط اور موثر گورننس سسٹم کی طرف لے جائے گی۔ اپنے ریمارکس میں سفیر مسعود خان نے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قومی اتحاد اور تشخص کو مضبوط بنانے کے لیے  نیشن بلڈنگ  (قوم سازی) کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر پاکستان کو اپنے بنیادی اصولوں پر اعتماد کے ساتھ عمل  پیرا ہونا چاہیے۔

انہوں نے قیادت اور عام عوام دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے نظریاتی انتشار  کے حوالے سے بھی خبردار کیا۔ اقتصادی ترجیحات کی طرف رونما ہوتی عالمی تبدیلی، بالخصوص مسلم دنیا میں اس کے بڑھتے ہوئے رجحان   کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسعود خان نے کہا کہ پاکستان کو  اپنی  نظریاتی جڑوں سے جڑے رہتے ہوئے   ان رجحانات سے سیکھنے کے لیے ایک توازن تلاش کرنا ہو گا۔ انہوں  نے قومی اقدار کو بہتر طریقے سے بیان کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ادب، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مقامی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ضرورت پرزور دیا۔  سفیر مسعود خان نے منفی اور معلوماتی جنگ سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی، جو ان کے بقول ملک میں اسٹریٹجک فالج کا باعث بنتے ہیں۔

ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے  انہوں نے ایک مثبت اور مستقبل کی طرف متوجہ قومی سمت کی ضرورت پر زور دیا ، جو پاکستان کی بنیادی نظریاتی اقدارکو  بھر پور طریقے سے دوبارہ پیش کرے اورتعمیراتی قوم سازی پر زور دے۔ سفیر ابرار حسین نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع مذاکرات کے اہم کردار پر زور دیا۔ انہوں نے پالیسی سازی میں  موجودخلاکو پر کرنے کے لیے اجتماعی حکمت اور ایک متفقہ نقطہ نظر کی ضرورت کی توثیق کی ، اورپالیسی سازوں، محققین اور سول سوسائٹی کے درمیان قریبی تعاون پر زور دیا تاکہ مزید مربوط اور اسٹریٹجک پالیسی سازی کو یقینی بنایا جا سکے۔

سفارت کاروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آگے بڑھنے کے لیے نہ صرف واضح قومی اہداف درکار ہیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر پاکستان کے نقطہ نظر کو پہنچانے کے لیے ایک مضبوط ابلاغی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل دور کے مواقع کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے اقتصادی اور سفارتی مستقبل کے لیے تکنیکی ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ  نوٹ کیا گیا کہ  عالمی سطح پر پاکستان کے پاس فری لانسرز کی  تیسری بڑی ترین تعداد موجود ہے  جو ترقی کے  ایک اہم موقع کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ مقررین نے  انٹرنیٹ آف تھنگز، ای کامرس اور جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی ٹیکنالوجیز میں بہتر پالیسیوں اور سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ، جو اقتصادی اور سفارتی کامیابی کے لیے بھرپور محرک بن سکتی ہے۔