حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے تحریک آزادی کی عملی اور ٹھوس مددکا اہتمام کرے ، جاندار اور ہمہ گیر کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے، کشمیری قیادت

اسلام آباد(صباح نیوز) کشمیری قیادت نے حکومت پاکستان پر زوردیا ہے کہ وہ ایک فریق کی حیثیت سے تحریک آزادی کی عملی اور ٹھوس مددکا اہتمام کرے ، حریت اور کشمیری قیادت سے مشاورت کرکے ایک جاندار اور ہمہ گیر کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے ،تحریک آزادی کی تقویت کے لیے ریاست آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی اور وسائل کے اعتبار سے مزید با اختیار بنایا جائے، او آئی سی کے تمام ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے بھارت کامعاشی بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ذ مہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں،

۔کانفرنس میں اسرائیلی جارحیت کے فوری خاتمے کامطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور او آئی سی پر زوردیا گیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف سفارتی اور معاشی تعلقات کے خاتمے کے ساتھ سخت تادیبی اقدامات کریں، یہ مطالبات جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کے زیر اہتمام درپیش مشکلات اور درکار اقدامات کے عنوان سے  مقامی ہوٹل میں ہونے والی کشمیر کانفرنس کے اعلامیہ میں کئے گئے ،

کانفرنس میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے علاوہ آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کے سیاسی و مذہبی زعما اہل دانش اور بین الاقوامی سفارتی محاذ پر متحرک کشمیری قیادت شریک ہوئی، کانفرنس میں آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی خاطر جاری تحریک کے دوران چار قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت آزاد جموںکشمیر ایک شفاف اور غیر جانبدار عدالتی کمیشن قائم کرکے اس کی فوری تحقیقات اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا د ے،

جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کے امیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان کی زیر صدارت بین الاقوامی کشمیر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا کانفرنس میں سابق صدر سردار محمد یعقوب خان ، سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان ، سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی ، گلگت بلتستان کے سابق چیف منسٹر خالد خورشید ، نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ ، سابق امیر جماعت عبدالرشید ترابی ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر حسن ابراہیم ، جمعیت علماء جموں کشمیر کے امیر مولانا امتیاز صدیقی ، جمعیت علمائے اسلام آزاد کشمیر کے مولانا سعید یوسف ، ملک محمدحنیف ممبرکشمیر کونسل مسلم لیگ ن ، مولانا عطاللہ شہاب ،صدر جے یو آئی گلگت بلتستان ،محمود احمد ساغر کنوینئر حریت کانفرنس ،

غلام محمد صفی کنوینئر تحریک حریت جموں کشمیر ، نائب امیر جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر نور الباری، مشتاق احمد ایڈووکیٹ نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر گلگت بلتستان ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی راجہ جہانگیر خان ،ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم کے صدر ، ڈاکٹر غلام نبی فائی، تحریک کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب ، تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر راجہ فہیم کیانی ، منظور قادر ڈار صدر لبریشن لیگ ، نبیلہ ایوب ، شائستہ صفی، محمد الطاف بٹ صدر سالویشن موومنٹ ،مزمل ٹھاکر، نذیر احمد قریشی ، ظفر قریشی ،امجد چوہدری سمیت دیگر قائدین شریک ہوئے،

کانفرنس نے طویل مشاورت کے بعد اعلامیہ منظور کیا۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست جموں کشمیرایک وحدت ہے جس کی یکطرفہ ضرب تقسیم کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔بھارتی قابض افواج کے خلاف سیاسی سفارتی اور عسکری محاذوں پر مزاحمت اہل کشمیر کا بنیادی حق ہے جس کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین نے دیاہے ۔کانفرنس میں کشمیریوں کے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے حق خود ارادیت کے حصول اور حق مزاحمت سے کسی طور دستبردار نہیں ہوں گے۔

کانفرنس نے5 اگست 2019 کے مودی سرکار کی آئینی دہشت گردی کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیاکہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح پاک بھارت دو طرفہ معاہدات اور تمام بین الاقوامی ضابطوں کی رو سے بھارت کی بد ترین ریاستی دہشت گردی ہے جسے کوئی بھی باغیرت کشمیری کسی طور قبول نہیں کرتا۔ کشمیرکانفرنس نے حریت قائدین محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم ، عبدالحمید فیاض ، محترمہ آسیہ اندرابی اور ان کے ساتھ دیگر مقید خواتین رہنمائوں اور ہزاروں بے گناہ حریت پسند کارکنان کی گرفتاریوں اور ان پر جعلی مقدمات کی شدید مذمت کی ہے جبکہ مقبوضہ ریاست کے مذہبی سکالر اور علما مشتاق احمد ویری، فہیم رمضان،میر واعظ شمالی کشمیرغلام حسن پرے کی گرفتاریوں،تشدد اوربے جا مقدمات کی بھی مذمت کی گئی،

کانفرنس نے دینی مدارس کی بندش پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ،کشمیری قیادت نے جماعت اسلامی جموں کشمیر، مسلم کانفرنس، جے کے ایل ایف اور حریت کانفرنس کی دیگرسیاسی اکائیوں پر پابندی کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو بھارت کی بوکھلاہٹ قرار د یا ہے ،جاری اعلامیہ کے مطابق ریاست کے مسلم اور کشمیری تشخص کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے مودی کے فاشسٹ اقدامات کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور کشمیریوں کی نسل کشی اور ڈیمو گرافی کی تبدیلی کی ان بھونڈی کوششوں کو تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف قراردیا گیا،کشمیر کانفرنس نے آزادی کی اس راہ میں شہید ہونے والے عظیم قائدین سید علی گیلانی ، مقبول بٹ، ، محمد اشرف صحرائی، شیخ عبدالعزیز میر واعظ مولوی عمر فاروق اور دیگر قائدین اور مجاہدین کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس جدوجہد کو ہر صورت میںمنطقی انجام تک پہنچا یا جائے گا۔

کشمیرکانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک مستند حل طلب مسئلہ ہے جو دو نیو کلیئر طاقتوں کے درمیان مسلسل کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے ۔اس مسئلے پر چار جنگیں ہو چکی ہیں اور مستقبل میں بھی اس مسئلے کی وجہ سے اس خطے پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔مودی کی حکمت عملی نے تلخی میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔اقوام متحدہ او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ جنوبی ایشیااور دنیا کے امن کے تحفظ کی خاطر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپناکردار ادا کریں اور بھارت کو ریاستی دہشت گردی سے باز رکھنے کے لیے سفارتی معاشی اوردیگر تمام ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔اعلامیہ میں اقوام متحدہ اور او آئی سی کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کی تحسین کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کے دورے کو یقینی بنانا ان بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے جس کا اہتمام کیاجانا چاہیے ۔کشمیری قائدین نے امید ظاہر کی ہے کہ او آئی سی کے زیر اہتمام نوے کی دہائی میں کشمیر ریلیف فنڈ کے اجرا کے فیصلے پر بھی عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔ کانفرنس میں او آئی سی کے حالیہ ا جلاس میں کشمیر پر قرارداد کی بھی تحسین کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ بھارت محض قراردادوں سے نہیں ٹھوس سفارتی اقدامات ہی سے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہو سکتا ہے اس لیے او آئی سی کے تمام ممالک بھارت کامعاشی بائیکاٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ذ مہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد باجوہ ڈاکٹرائن سے تحریک آزادی اور پاکستان کی سلامتی کو شدید دھچکا لگاہے، باہم بے اعتمادی کی خلیج میں اضافہ ہوا جس کے تدارک کے لیے قومی سطح پر واضح موقف اور بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں حریت اور کشمیری قیادت سے مشاورت کی جائے اور ایک جاندار اور ہمہ گیر کشمیر پالیسی تشکیل دی جائے ۔ کشمیرکانفرنس میں کہا گیا ہے کہ ہم حکومت پاکستان کی محض اخلاقی، سیاسی ،سفارتی حمایت سے مطمئن نہیں ۔پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔اس لیے پاکستان تحریک آزادی کی عملی اور ٹھوس مددکا اہتمام کرے اور دنیا پر واضح کرے کہ پاکستان ،بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف جاری کشمیریوں کی قانونی جدوجہد کی وہ ہر محاذ پر مددکا پابند ہے ۔ اس موقف پر باقی ممالک سے بھی حمایت کو یقینی بنائے ،کشمیر کانفرنس کے اعلامیہ کہا گیا ہے کہ ایک اسلامی جمہوری اورمستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی کی ضمانت ہے ، تمام قومی رہنمائوں اور اداروں سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ پاکستان میں باہمی انتشار کو ختم کریں اور مذاکرات سے متنازعہ مسائل کو حل کرتے ہوئے یکجہتی کا ماحول پیدا کریں ۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تحریک آزادی کی تقویت کے لیے ریاست آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو آئینی اور وسائل کے اعتبار سے مزید با اختیار بنایا جائے ان خطوں میں عدل و انصاف پر مبنی اسلام کا فلاحی معاشرہ قائم کرنے کا اہتمام کیا جائے جو مقبوضہ کشمیر کے لیے ایک رول ماڈل بن سکے،کانفرنس میں آزاد کشمیر میں عوامی حقوق کی خاطر جاری تحریک کے دوران چار قیمتی جانوں کے ضیاع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت آزاد جموںکشمیر ایک شفاف اور غیر جانبدار عدالتی کمیشن کا قیام کرتے ہوئے اس بھیانک عمل کی فوری تحقیقات اور ذمہ داران کو قانون کے مطابق سزا دینے اور جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کو قانون دیت کے مطابق معاوضہ د ے۔کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزادکشمیر میں میرٹ اور NTSکے نظام کو موثر اور فعال بنایا جائے ۔آزاد حکومت کی وساطت سے کشمیریوں کو بین الاقوامی محاذ پر بھرپور ترجمانی کرنے کا موقع دیا جائے اس سلسلے میں آزادکشمیر کے آئین کے مطابق مشیر رائے شماری کا تقررفوری طور پر کیا جائے جو بین الاقوامی محاذ پر رائے عامہ ہموار کرے۔مقبوضہ اور آزادکشمیر کے شہدا کے خاندانوں کی کفالت کے لیے بھرپور اہتمام کیا جائے، نوے کی دہائی میں ہجرت کرنے والے آزادکشمیر میں کیمپوں میں مہاجرین کے مسائل حل کیے جائیں اور ان تمام امور کی انجام دہی کے لیے کشمیر ریلیف فنڈ قائم کیا جائے۔

کانفرنس میں عہد کیا گیا کہ شہدا کی قربانیوں کو نتیجہ خیز بنانے اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے منزل کے حصول تک جدوجہد جاری ر کھی جائے گی ،کانفرنس میں اہل فلسطین اور غزہ سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زائد فلسطینی بالخصوص بچے اور خواتین شہید ہو چکے،غزہ کے ہسپتالوں ،تعلیمی اداروں اوررہائشی عمارتوں کوکھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔کانفرنس اسرائیلی جارحیت کے فوری خاتمے کامطالبہ کرتی ہے ۔کانفرنس اقوام متحدہ اور او آئی سی، اسرائیل کے خلاف سفارتی اور معاشی تعلقات کے خاتمے کے ساتھ سخت تادیبی اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے اور اہل فلسطین کے حق مزاحمت کی پشتیبانی کے لئے بھرپور امداد کا مطالبہ کرتی ہے۔کانفرنس میں سابق وزیراعظم اور فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں پوتوں اور نواسوں اور دیگر ہزاروں شہدا کے قتل عام پر ان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا گیا،.

انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن شائستہ صفی نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں ، خواتین کو بے آبرو کیا جا رہا ہے ، جبکہ آزاد کشمیر میں روٹی اور بجلی کے بلوں کی لڑائی جاری ہے ، کشمیریوں کو درپیش مشکلات کا ادراک کیا جانا چاہیے ،