اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرا کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انہوں نے وزارتِ خارجہ میں ”پائیدار ترقی میں نجی شعبے سے استفادہ” کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سب کو پائیدار ترقی کی رپورٹ 2021 کے اجرا کی تقریب میں شرکت پر خوش آمدید کہتا ہوں،میں بطور وزیر خارجہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کیلئے مختلف سوچ اپنانا ہو گی، ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرا کر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، گذشتہ دو سالوں میں کرونا وبا کے باوجود پاکستان معاشی طور پر بحالی کی جانب گامزن ہوا ہے اور ورلڈ بینک نے اس کی توثیق کی ہے، 2018 میں جب ہم نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو تمام معاشی اشاریے منفی میں تھے، ہم، 20 ارب ڈالر کے اقتصادی فرق کو پورا کرنے کیلئے فوری کاوشیں بروئے کار لائے ، میں نے ریاض ابوظہبی، اور بیجنگ کے دورے کیے، انہوں نے ہماری معاونت کی مگر وہ ہماری فوری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہ تھی، چنانچہ ہمیں آی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا، آج ہم اس ملک میں پائیدار ترقی کی بات کر رہے ہیں جو ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے، ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیرپا ترقی کیا ہے، اسی کی دہائی میں ہماری ترقی 6 فیصد کو چھو رہی تھی لیکن بعد میں یہ شرح برقرار نہیں رہ سکی، ہمیں اس گروتھ کی شرح کو دیرپا بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ۔آج 5.4 فیصد گروتھ کو کافی نہیں کہا جاسکتا ہمیں اسے آگے لے کر جانا ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ دیرپا ترقی کا حصول کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئوٹ آف باکس سوچ کو آگے بڑھانا ہو گا، ہمیں دنیا کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی، ہماری حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کیا جسکا بنیادی جزو اقتصادی سکیورٹی ہے،ہمارے سفرا اس پائیدار معاشی استحکام کو حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، میں پر امید ہوں کہ ہم نے اقتصادی سفارت کاری کی صورت میں جو بیج بویا وہ ضرور ثمربار ہو گا،ترقی پذیر دنیا 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں تاحال بہت پیچھے ہے، ہماری حکومت نے یونیورسل صحت کارڈ کا اجرا کیا جس کے تحت پاکستان کے ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس کی ضمانت دیتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ادراک ہے کہ بیماری کا ایک جھٹکا کسی بھی خاندان کو غربت کی لکیر سے نیچے لے جا سکتا ہے، یہ صحت کارڈ، ہر فرد کو احساس تحفظ فراہم کرتا ہے، آج ہمیں سرمایہ کاری 16 فیصد حجم کے ساتھ درکار ہے جبکہ ہمارا موجودہ حجم 2 فیصد ہے، ہمیں مطلوبہ حجم کے حصول کے لیے کچھ الگ اپروچ اپنانا ہو گی، صحت کارڈ کے ذریعے صحت کے شعبہ میں پرائیویٹ سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، ہمیں ہر دفعہ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا مشورہ دیا جاتا ہے، ہمیں توانائی کے شعبے میں نئی سوچ کو ترویج دینا ہو گی،ہمیں دیکھنا ہے کہ وسائل کے فرق کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے ، میری دانست میں، زرعی شعبے میں بجلی کی کھپت کو پورا کرنے کیلئے، شمسی توانائی کو بروئے کار لا کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ” نجی شعبے کی سرمایہ کاری برائے دیرپا ترقی اہداف” کا مکمل نقشہ سامنے لایا جا رہا ہے،کرپٹ لیڈرشپ، ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ ہے، ہمیں ملک کو آگے لے جانے کیلئے سوچ کے دھارے میں تبدیلی لانا ہو گا، پارلیمنٹ میں تعلیم یافتہ لیڈرشپ کی موجودگی اور صحت مند مباحثے سے صورتحال میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، لوکل گورنمنٹ سسٹم کو فعال اور مستحکم بنانا ناگزیر ہے، ہماری کوشش ہے کہ عوام ڈسٹرکٹ کونسل کے نمائندگان کو براہ راست الیکٹ کریں، محدود الیکٹرل کالج کے ذریعے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا ،ہمیں درپیش چیلنجز نئے نہیں ہیں ،ہمیں ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نئی اپروچ کی ضرورت ہے، یہی وہ نئی اپروچ ہے جسے ہم دنیا بھر میں پاکستان کے 114 سفارت خانوں میں بروئے کار لانے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ان پالیسی تجاویز پر یواین ڈی پی کا شکریہ ادا کرتا ہوں، پبلک سیکٹر تنہا ان اہداف کو حاصل نہیں کرسکتا لیکن نجی شعبے کے تعاون سے دیرپا ترقی کے ایجنڈے 2030 کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے، میں اس رپورٹ کے حوالے سے بورڈ آف انویسٹمنٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔