بدامنی کا حقیقی حل مکمل آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے،ملی یکجہتی کونسل

اسلام آباد(صباح نیوز)سربراہی اجلاس ملی یکجہتی کونسل کے مشترکہ اعلامیہ میںعالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کو انسانیت کے قتل عام سے روکے،جاری بدامنی کا حقیقی حل مکمل  طور پر آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے، عالمی برادری پورے فلسطین پر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیجہادِ اسلامی صرف فلسطینیوں پر ہی نہیں پوری امت پر فرض ہے۔

ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس صدرصاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرکی صدارت میں ہوا۔ کونسل کے سیکرٹری جنرل نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے میڈیا کو فیصلوں کے بارے میں بریفنگ دی ۔جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کونسل کی قیادت غزہ اور مغربی کنارے پر گزشتہ دو ماہ سے جاری بدترین اسرائیلی صیہونی جارحیت اور غزہ کے معصوم بچوں، خواتین اور نہتے عوام پر ہزاروں ٹن بارود وآہن کی مسلسل بارش سے جنم لیتے انسانی المیے اور شہادتوں پر عالمی طاقتوں کی بے حسی اور قاتل، ناجائز صیہونی ریاست کو فلسطینیوں کے قتل عام کا کھلا لائسنس دیکر ہر طرح کی پشت پناہی اور مدد کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ غزہ پر گزشتہ دو ماہ سے زائد وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں 20 ہزار کے قریب فلسطینی قتل کردیے گئے، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جبکہ 45 ہزار سے زائد زخمی ہیں. دیگر ہزاروں بچے، مرد و خواتین ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار چکے۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خود امریکہ اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں اسرائیل نے غزہ میں جو قتل عام کیا وہ 20 سالہ افغان جنگ سے بھی کہیں زیادہ ہے. صیہونی فوج کی مسلسل بمباری نے 23 لاکھ لوگوں کو بے گھر، ان کی رہائشی عمارتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنیا میں اگر کوئی جہنم ہے تو وہ غزہ ہیاور خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بمباری سے جنم لینے والے المیہ سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی ناپید ہونے کے باعث اب غزہ کے لاکھوں انسانوں کے بھوک، طبی امداد کی عدم فراہمی سے مرنے کا خدشہ ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ  اسرائیل  کا غزہ میں ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں، سویلین آبادیوں میں بالخصوص معصوم بچوں، خواتین اور ضعیف شہریوں، رضاکاروں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے نمائندوں، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف اور صحافی برادری کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگی جرائم کی عالمی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کو روکنے میں ناکام ہیں۔

              اسرائیل اپنے وحشیانہ اقدامات کو حماس کے حملوں کا جوابی ردعمل قرار دے کر فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے. عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کو انسانیت کے قتل عام سے روکے. حماس کے 07 اکتوبر کے اقدام کو کسی صورت اس قتل عام کا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا. بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ ارضِ فلسطین پر ناجائز اور غیرقانونی صیہونی قبضے اور اہل غزہ و فلسطین پر ان مظالم کا ردعمل ہے جو اسرائیل گزشتہ 75 سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ لہذا ملی یکجہتی کونسل کا یہ سربراہی اجلاس سمجھتا ہے کہ یہ تنازعہ 07 اکتوبر 2023 کو نہیں بلکہ اس کا آغاز دراصل 75 سال پہلے اس دن سے ہوا جب فلسطینیوں کے وطن پر قبضہ کرکے انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کی ان غیرانسانی پرتشدد کارروائیوں کو فوری طور پر روکے اور تنازعے کا حقیقی اور پائیدار حل تلاش کرے۔ مسئلہ فلسطین  اور مشرق وسطی میں جاری بدامنی کا حقیقی حل آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔

عالمی برادری پورے فلسطین پر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت قرار دے۔ملی یکجہتی کونسل کا یہ سربراہی اجلاس دنیا بھر کے امن پسند اقوام کی طرف سے ناجائز صیہونی اسرائیلی ریاست کے ظلم و بربریت کے خلاف تاریخ ساز مظاہروں اور فلسطینی عوام کی حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتا ہے اور طاقت ور ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے اب ناجائز صیہونی ریاست کی مزید پشت پناہی سے باز آجائیں۔ نیز عالمی برادری اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی  تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے غزہ کے محبوس شہریوں کے لیے خوراک، پانی، بجلی، تیل اور علاج جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ہر حال میں یقینی بنائیں تاکہ وہاں جنم لینے والا انسانی المیہ اختتام پذیر ہو۔  یہ حقیقت پوری دنیا پر عیاں ہے کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے، جو مذہب اور نسل کی بنیاد پر قتل عام کو جائز قرار دیتا ہے۔ مہذب دنیا کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل جیسی نسل پرست، ناجائز ریاست کی پشت پناہی اور مدد کی بجائے اس کے ہاتھوں کو فلسطینیوں کے خون سے مزید رنگنے سے روکے اور شہری آبادی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم حکمرانوں کی بے حسی کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

خطے کے ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنازعہ فلسطین کے دیرپا اور پائیدار حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ او آئی سی، جس کا قیام ہی القدس کے تحفظ کے لیے ہوا تھا، کی طرف سے سعودی عرب کی میزبانی میں بلائے گئے اجلاسوں کا کسی متفقہ حکمت عملی کے بغیر بے نتیجہ ختم ہونا اور اس کے بعد مسلم حکمرانوں کا خاموش تماشائی بن کر فلسطینیوں کا قتل عام دیکھتے رہنا بذات خود مسلم امہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ او آئی سی، عرب لیگ اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اسلامی ممالک ان تمام ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں جو اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت اور سرپرستی کر رہی ہیں۔مسلم دنیا اہلِ فلسطین کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات  کی فراہمی کے لیے  عالمی فلسطین فنڈ قائم کرے اور غزہ تک رسائی حاصل کرکے انسانی امداد و وسائل کی فراہمی یقینی بنائے۔ اس ضمن میں فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک کو روایتی کردار سے آگے بڑھ کر ذمہ داری نبھانی ہوگی۔فلسطین کی جدوجہد آزادی کے لئے فلسطینیوں کی تمام تنظیموں کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ بالخصوص فلسطینی اتھارٹی اور غزہ میں حماس انتظامیہ کے درمیان افہام وتفہیم اور تنسیق وقت کا تقاضا ہے تاکہ متحد ہو کر ظالمانہ تسلط کا مقابلہ کیا جاسکے۔

حالیہ عرصے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے والے یا اس پر سوچ بچار کرنے والے مسلم ممالک اپنے اقدامات پر  نظر ثانی کریں اور فی الفور مستقل بنیادوں پر اسرائیل کیساتھ ہر سطح کے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کریں۔ فلسطین پر اسرائیلی مقف تبدیل کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا اور اس سے سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی دراصل 75 سالہ اسرائیلی مظالم و غیرقانونی قبضے کو سندِ قبولیت دینے کے مترادف ہے۔گزشتہ عرصے میں رونما ہونے والے عالمی حالات و واقعات اور جنگوں نے اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ مادی طاقت اور تیکنیکی برتری کسی صورت کامیابی کے لیے جواز فراہم نہیں کرسکتے۔ اقوام اور ریاستوں کو نام نہاد قومی مفاد اور ملکی تعصبات کی بنیاد پر صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ مشرقِ وسطی میں اسرائیلی اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی جارحیت پر عالمی ضمیر کی خاموشی ظلم و تشدد کو مزید شہہ دینے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کا سبب بن سکتا ہے.۔ ملی یکجہتی کونسل کا یہ سربراہی اجلاس اہل غزہ اور فلسطین کے حق میں دنیا بھر سے اٹھنے والی انصاف پسند آوازوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جو تمام تر مشکلات اور قومی، مذہبی، نسلی، لسانی اور گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اسرائیل کو اس کے انسانیت سوز مظالم اور غیرمنصفانہ قبضے کے خلاف  متنبہ کر رہی ہیں۔

جہاں مغربی میڈیا کے کئی ادارے اپنی گمراہ کن رپورٹنگ اور دوہرے معیارات کے باعث بے نقاب ہوئے ہیں، وہیں  فلسطین، مشرقِ وسطی اور دنیا کے دیگر خطوں میں حق پرستی اور سچائی کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافی بالخصوص تعریف کے مستحق ہیں جو خطرات کی پروا کیے بغیر اصل حقائق دنیا تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔پاکستان نے  تمام تر دبا کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھا ہے۔تاریخی طور پر تنازعے کے دوران تمام اہم مواقع پر پاکستان نے موثر سفارتی و سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کا یہ سربراہی اجلاس حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حالیہ تنازعے میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور  اپنے روایتی موقف کو قدرے شدت کیساتھ دہراتے ہوئے فلسطینیوں کی اخلاقی، سفارتی اور مالی سرپرستی کو یقینی بنائے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اہلِ فلسطین کی امداد اور تعاون کے لیے سرکاری سطح پر فلسطین فنڈ قائم کیا جائے، فلسطینی ہلالِ احمر، اقوامِ متحدہ، اور دیگر اسلامی ممالک کی مدد سے فلسطین تک انسانی امداد و وسائل پہنچانے کا مثر انتظام کیا جائے اور غزہ میں مزید خون ریزی روکنے کے لیے امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر طاقتور ملکوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے. سیاسی پولرائزیشن کے شکار پاکستانی معاشرے نے  مسئلہ فلسطین پر جس قومی یکجہتی اور دینی و ملی حمیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی انتہائی لائق تحسین اور اطمینان بخش ہے۔

مسئلہ فلسطین پر قائداعظم  کا حکم بالکل  واضح ہے کہ “ناجائز اسرائیلی ریاست کو پوری دنیا بھی تسلیم  کر لے، پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔” یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ  23مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان سے پہلے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور ہوئی۔ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس- غزہ کے مظلوموں اور فلسطینیوں کیساتھ دل و جان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ فلسطینیوں کی قبلہ اول مسجد اقصی کی آزادی کے لیے جدوجہد جائز اور مبنی برحق ہے. جہادِ اسلامی صرف فلسطینیوں پر ہی نہیں پوری امت پر فرض ہے. فلسطین کی تمام تنظیمیں بھی اتحاد اور یگانگت برقرار رکھیں. – عالمِ اسلام اور عالمی ادارے اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ مسئلہ فلسطین عالمِ عرب میں اور مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کے دیرینہ حل طلب مسائل ہیں. کشمیریوں اور فلسطینیوں کا حق آزادی تسلیم کرنے سے ہی دنیا میں امن، انصاف اور مظلوم کی دادرسی کا نظام قائم ہوگا. – ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں آل پارٹیز آزادء فلسطین کانفرنس منعقد کی جائے گی. یہ کانفرنس فلسطینی قیادت کے پاکستان سے توقعات کا مثبت حل تلاش کرے گی تاکہ حکومتِ پاکستان مسئلہ فلسطین پر 25 کروڑ پاکستانیوں کی باعزت، باوقار نمائندگی کا حق ادا کرسکے. – ملی یکجہتی کونسل کی صوبائی تنظیمیں کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، گلگت-بلتستان اور مظفر آباد میں آزادء فلسطین سیمینار منعقد کریں گی. – ملی یکجہتی کونسل کا سربراہی اجلاس پوری قوم سے اپیل کرتا ہے کہ 15 دسمبر جمع المبارک کو مساجد میں علما، خطیب حضرات مسئلہ فلسطین پر خطاب کریں اور نماز جمعہ کے بعد عوام اپنے فلسطینی بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی اور اسرائیلی صیہونی ظلم اور قتل و غارت گری کی مذمت میں مظاہرے کریں.