اسلام آباد (صباح نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹراعتزاز احسن نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی پیپلز پارٹی میں انتظامی معاملات کا فرق ہے۔
انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرئے ہوئے کہا کہ بی بی شہید بہت با صلاحیت تھیں، آج ہمیں ان کی بہت ضرورت تھی کیونکہ وہ اتفاق رائے پیدا قائم کرنا جانتی تھیں،ان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ کئی جماعتوں کے لیے بیک وقت لیڈ رول کا کردار ادا کرسکیں، ان کے دور میں کبھی پی ڈی ایم اتحاد تشکیل دیا گیا تو کبھی ایک اور کبھی دوسرا اتحاد بنا۔انہوں نے کہا کہ ایسے اتفاق رائے پر اکثر نوابزادہ نصراللہ خان کو سراہا جاتا تھا اور انہیں قیادت کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا لیکن اس حوالے سے زیادہ کام بے نظیر بھٹو کا ہوا کرتا تھا اور ان کے پاس ہر جماعت کے تحفظات اور اعتراضات کا جواب ہوتا تھا، انہوں نے بہت محنت کی اور ان میں محنت کرنے کا بہت جذبہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں 76 سال کا ہوں اور کووڈ کی وجہ سے احتیاط کررہا ہوں ورنہ میں پارٹی کے اجلاسوں میں ضرور شرکت کرتا ہوں صرف جلسوں سے دور ہوں، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں پارٹی سے دور ہوں۔ پی پی پی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بی بی شہید نے اپنے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے اور جو وقت آرہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں جلد کوئی اہم عہدے پر اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی صورت حال بہت عجیب سی ہو رہی ہے وہ جو دستاویزات پیش کرتے ہیں وہ ان کے خلاف ہی چلی جاتی ہیں یہاں انہوں نے قطری شہزادے کے خط کا حوالہ دیا اور مزید کہا کہ ارشد ملک کی ویڈیو بھی جعلی لگتی ہے کیوںکہ اسے کہیں بھی ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سابق جج رانا شمیم کا کیس ہی دیکھ لیں اس کو بھی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے، غلط بیانی کا اب معلوم ہورہا ہے کہ ان دستاویزات کو بنانے کے وقت نواز شریف موجود تھے بلکہ یہ ان کے دفتر میں بھی تیار کی گئیں جبکہ یہ سب اس سے خود کو دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ بھی جعلی نظر آئی، جسے متعدد تقاریر سے اٹھا کر بنایا گیا تھا، اور مختلف اصطلاحات کو اٹھا کر جوڑا گیا تھا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک پائی کی رشوت نکال لیں لیکن اتنی ٹی ٹیز سامنے آئی ہیں جو سمجھ میں نہیں آرہا ،مریم بی بی نے جس انداز میں ارشد ملک کی ٹیپ دکھائی اور دھمکی دی کہ ان کے پاس مزید ٹیپس ہیں اور لگتا تو ایسا ہی ہے کہ سابق چیف جسٹس کی جعلی ٹیپ بھی انہوںنے نکالی ہے، قوم اس طرح تو اسے نہیں مانے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر کوئی احترام کی زبان استعمال کررہا ہے تو وہ انہیں صرف بلاول بھٹو زرداری کی لگتی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی عمر کم ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس طرح تو جب بینظیر بھٹو، وزیراعظم بنی تھیں تو ان کی عمر بھی کم تھی۔نواز شریف کے واپسی کے لیے گٹھ جوڑ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ میں کسی بھی فرد کی تاحیات نا اہلی کے خلاف ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہ عدالت کا اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو تا حیات نا اہل قرار دے، اور اگر ایسا ہوتا تو قانون میں اس حوالے سے کچھ نہ کچھ شامل ہوتا، قانون میں صرف 10 سال کی نا اہلی کا ذکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کب وطن واپس آئیں گے؟ تو میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بتا دیا جائے کہ آپ صرف 4 ماہ کے لیے گئے تھے اور واپس نہیں آئے، اس لیے شاید آپ کو فوری ضمانت نہ مل سکے اور آپ کو کچھ عرصہ جیل میں رہنا پڑے تو میرا نہیں خیال کہ وہ تشریف لائیں گے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ بی بی کی پیپلز پارٹی اور زرداری کی پیپلز پارٹی میں کیا فرق ہے؟ تو اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ دونوں میں انتظامی فرق ہے، بی بی کا ہر ورکر کے ساتھ تعلق براہ راست تھا جو آصف زرداری نہیں رکھ سکے جب خاص طور پر وہ صدر پاکستان بن گئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ بی بی لندن میں یا دبئی میں ہوتی تھیں تو وہ ایک چھوٹی سے خبر پر بھی فوری ورکر سے رابطہ کرتی تھیں اگر کسی ورکر کا گھر بھی گرایا جا رہا ہوتا تھا تو وہ عہدیداروں سے بات کرتی تھی یا مجھے کہتی تھیں کہ اس معاملے پر عدالت سے اسٹے لے لیں اور دوسری جانب آصف زرداری صاحب یہ رشتہ اور رابطہ قائم نہیں رکھ سکے۔انہوں نے کہا کہ خاص طور پر ایسے وقت میں جب صدر پر عدالت نے مختلف پابندیاں لگا دی تھیں کہ وہ بحیثیت صدر متعدد کام نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے پارٹی اور ان میں ایک خلیج آگئی دوسری جانب بی بی بینظیر بھٹو، پارٹی کو اپنی ہتھیلی کی طرح رکھتی تھیں جیسے ہاتھوں کی لکیریں ہیں، اسی طرح انہیں ہر ورکر کے بارے میں معلوم ہوتا تھا۔
کیا آپ بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات سے متعلق سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک دو چیزیں بہت واضح ہیں کہ 18 اکتوبر 2007 کو کارساز پر حملہ ہوا تو اس میں، میں بھی موجود تھا، دھماکے کے ایک گھنٹے کے اندر جہاں ایک 180 افراد جاں بحق ہوئے تھے اس جگہ پر فوری صفائی کردی گئی، جب 27 دسمبر 2007 کو حملہ ہوا ان کے ساتھ 20، 22 لوگ جاں بحق ہوئے وہاں سے بھی لاشیں اٹھا کر صفائی کردی گئی ، اس کے پیچھے کیا حکمت عملی ہوسکتی ہے؟ جبکہ جنرل پرویز مشرف کی ایک کتاب سب سے پہلے پاکستان میں انہوں نے لکھا کہ جب ان پر 2003 راولپنڈی میں حملہ ہوا تھا اور وہ بال بال بچ گئے تو اس کی تحقیقات سابق جنرل کیانی نے بہترین انداز میں کیں اور وقوعہ سے ایک سم کی برآمدگی کے بعد ملزمان تک رسائی حاصل کی گئی۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب کراچی میں کارساز اور راولپنڈی میں حملوں کے مقامات پر فوری صفائی کی گئی، یہ تفتیش کے بالکل خلاف ہے کہ آپ جائے وقوع کو یوں دھو دیں۔