لاہور (صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹر جنرل نافع پاکستان پروفیسر محمدابراہیم خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ دنوں کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس کے شعبہ بیچلرآف الیکٹریکل انجینئرنگ (BEE)کے پہلے سمسٹر کے امتحان میں انگریزی کے پرچے میں غیراخلاقی اور بے ہودہ کہانی سے متعلق پوچھے گئے سوال پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک شریف آدمی تو وہ سوال زبان پر دلانے سے کانپ جاتا ہے۔ مادر پدر آزاد ممالک امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بھی اس قسم کے سوالات پوچھنے کی کوئی مثال نہیں ملتی،چہ جائے کہ ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی یونی ورسٹی میں جہاں 98فی مسلمان طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں،وہاں اس قسم کا غیراخلاقی سوال پوچھا جانا اسلامی تعلیمات کے منافی ملکی قوانین کی خلاف ورزی اور جرم ہے۔ اس بے ہودہ غیر اخلاقی حرکت جب وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، طلبہ و طالبات، والدین اور سوشل میڈیا پر اہل پاکستان نے ردعمل دیا تو یونی ورسٹی انتظامیہ نے ایک سادہ نوٹس جاری کرکے اس جرم میں انگریزی کے لیکچرار کوذمہ دار قرار دیا اور اسے یونی ورسٹی سے فارغ کردیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ صرف وفاقی وزیز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا نوٹس لینا کافی نہیں بلکہ وزیراعظم،چیف جسٹس آف پاکستان، اوروزیر تعلیم کو اس معاملے پر سخت ایکشن لیں اورعلمی درس گاہ میں بے حیائی پھیلانے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا تاکہ آیندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ایچ ای سی (HEC)سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ یونی ورسٹیوں کے تمام مضامین کے کورس کا ازسرنو جائزہ لیں،اور اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے ایک جامع ہدایات اساتذہ کے لیے جاری کریں۔ اْنھوں نے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے،یہاں کا آئین اسلامی ہے اور آئین کی رو سے کوئی بھی ایسا اقدام قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا،اس پر کارروائی ہوگی۔ ہمارے آئین کابھی تقاضا ہے کہ پاکستان کی مذہبی و ثقافتی روایات کسی بھی صورت پامال نہ کی جائیں، اس لیے اسکولز،کالجز یا یونی ورسٹیز میں امتحانی سوال چاہے انگریزی کاہو، اردوکا ہو یا سائنس کا،اسلامی اور پاکستانی روایات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا کہ ملک عزیز میں ایسے اندوہناک واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور آیندہ بھی ممکن ہے۔حالیہ واقع جہاں لیکچرار مجرم ہے،وہاں یونی ورسٹی بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ سوال یہ ہے کہ یونی ورسٹی نے ایسی ذہنیت کے لیکچرار کا تقررہی کیوں کیا؟،اس کا پروفائل چیک کیوں نہیں کیا گیا؟اور پھر یہ کہ ایسے غیر اخلاقی مواد کو فلٹر کرنے کا کوئی بندوبست کیوں نہ کیا۔ ناگزیر ہے کہ اس طرح کے معاملے میں ٹھوس حکمت عملی اختیار کی جائے اورمجرموں اور سہولت کاروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے ۔۔