بھارتی قانون کے تحت جموں وکشمیر اب بھی بھارت کا حصہ نہیں،نئی دہلی ہائی کورٹ  میں درخواست


سری نگر: نئی دہلی ہائی کورٹ نے  میں دائر کی گئی ایک اہنی پٹیشن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ  آرٹیکل 370  کو ختم  کر نے اورجموں کشمیر کی تنظیمِ نو   ایکٹ2019 کے نفاز کے باوجود بھارتی قانون کے تحت جموں وکشمیر اب بھی بھارت کا حصہ نہیں ہے ۔

بھارتی اخبار  کے مطابق  درخواست میں بتایا گیا ہے کہ  تعزیرات ہند(آئی پی سی)کی دفعہ 18 انڈیا” کی تعریف کرتی ہے ۔ اس شق  کے تحت  جموں و کشمیر  ہندوستان میں شامل نہیں ہے ۔نئی دہلی ہائی کورٹ  کے جسٹس مکتا گپتا اور پونم اے بامبا  پر مشتمل ڈویژن بنچ نے بھارتی حکومت سے اس معاملے پر  چار ہفتوں کے اندر  جواب طلب کیا ہے ۔ کے پی آئی  کے مطابق  نئی دہلی ہائی کورٹ اب اس معاملے کی سماعت 26 اپریل کو کرے گی

۔ایڈوکیٹ انوبھو گپتا کی طرف سے دائر درخواست میں دلیل دی گئی کہ اگست 2019 میں بھارتی  حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 لایا اور  جموں وکشمیر میں رائج رنبیر پینل کوڈ 1989 کو منسوخ کر دیا ، اگرچہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کے ساتھ تعزیرات ہند (IPC) کی دفعات میں تبدیلیاں کی گئیں مگر تعزیرات ہند(آئی پی سی)کی دفعہ 18  اسی طرح چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس شق کے تحت ریاست جموں و کشمیر  کے بغیر ہندوستان کا علاقہ واضح کیا گیا ہے یعنی جموں وکشمیر بھارت سے الگ ہے ۔عرضی میں یہ بھی گیا ہے کہ جموں اور کشمیر کے بھارتی  علاقے میں غیر ملکی شہریوں کے لیے کوئی تعزیری ضابطہ نہیں ہے۔

یاد رہے  بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کاآرٹیکل 370  کو ختم کردیا اور جموں کشمیر کی تنظیمِ نو سے متعلق نیا قانون منظور کرلیا تھا۔ اس قانون کے تحت جموں و کشمیر ایک کروڑ 22 لاکھ افراد پر مشتمل ایک علیحدہ اور لداخ 3 لاکھ افراد پر مشتمل دوسری اکائی کہلائے گا اور دونوں اکائیاں براہ راست نئی دہلی میں موجود وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہوں گی۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہزاروں افراد کو قید کرکے، ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرکے خطے کو لاک ڈان کردیا تھا اور ساتھ ہی مواصلاتی روابط بھی معطل کردیے تھے۔ 31 اکتوبر 2019کو   بھارتی حکومت  جموں کشمیر کی تنظیمِ نو   قانون کے تحت ایک کروڑ 25 لاکھ افراد پر مشتمل ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا، جموں و کشمیر کو الگ اور لداخ کو الگ اکائی بنایا  گیا۔

قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی وفاقی اکائی کی ایک منتخب قانون ساز اسمبلی ہوگی، جس کی مدت 5 برس ہوگی، اس کی سربراہی بھارت کی جانب سے مقرر کیے گئے لیفٹیننٹ گورنر کریں گے لیکن زیادہ اختیارات نئی دہلی کے پاس موجود ہوں گے۔دوسری جانب لداخ وفاقی حکومت کے براہ راست زیر انتظام ہوگا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور اسے ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جائے گا۔

علاوہ ازیں کارگل سمیت لداخ کے 2 اضلاع کو پہلے ہی ‘ہل کونسل’ کے ذریعے چلایا جارہا تھا، جس کے تحت ان علاقوں کو ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر سے زیادہ خود مختاری حاصل تھی۔وفاقی اکائیوں میں تقسیم ہونے کے بعد بھارتی لوک سبھا میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے 5 نمائندے ہوں گے جبکہ لداخ کا ایک نمائندہ نئی دہلی میں موجود پارلیمنٹ میں ہوگا۔