سری نگر:مقبوضہ کشمیر کے 20 اضلاع میں کشمیری مسلمانوں کو زمین سے محروم کرنے کی جاری کارروائی کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ عنقریب آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا روہنگیا مسلمانوں کی مانند لائن آف کنٹرول کی جانب بھاگ رہا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میںعوامی حلقوں میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے کہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت مقامی لوگوں کو زمین سے بے دخل کرکے یہاں غیر کشمیریوں کو بسائے جانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم کشمیری خاتون صحافی نعیمہ احمد مہجور نے غیر ملکی نیوز پورٹل میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت نے خطے کے 20 اضلاع میں مقامی انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے کہ وہ سرکاری زمین پر املاک یا ناجائز تجاوزات کو گرا کر زمین واپس حاصل کرنے کی کارروائی پر سختی سے عمل کرے۔ اس کارروائی میں چند ہفتوں سے بل ڈوزر سے گھروں کے منہدم یا زمین بوس کرنے کی ویڈیوز دیکھ کر یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عنقریب آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا بقول ایک مقامی صحافی روہنگیا مسلمانوں کی مانند لائن آف کنٹرول کی جانب بھاگ رہا ہوگا۔جموں و کشمیر کی اس دل دوز کہانی کا خاتمہ ہی نہیں ہو رہا ہے جو سامراجی طاقت نے 1847 میں 75 ہزار نانک شاہی لے کر انسانوں اور ان کی زمین کی خرید و فروخت سے شروع کی تھی ۔پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ اور ان کے درباری کمانڈر مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان تلخی نہ ہوئی ہوتی تو شاید گلاب سنگھ نہ اس خطے کے مالک بن جاتے، نہ کشمیر کا سودا ہوا ہوتا اور نہ اس سرزمین کا جھگڑا اتنا طول کھینچتا۔مہاراجہ دور میں غیر منقسم پنجاب کے تاجروں کا کشمیر آنا جانا رہتا تھا اور ان میں سے بعض یہاں سکونت بھی اختیار کرنے لگے تھے۔چوں کہ مہاراجہ کے دربار میں جموں کے ڈوگروں اور کشمیری پنڈتوں کی خاصی تعداد موجود رہتی تھی لہذا انہوں نے پنجابیوں کو روکنے کے لیے مہاراجہ پر شہریت کا خصوصی قانون لاگو کرنے پر زور ڈالا۔یہی قانون 47 کے بعد الحاق ہندوستان کا حصہ بنا، جسے پانچ اگست 2019 کو ختم کیا گیا۔13 جولائی 1950 کو نیشنل کانفرنس کی پہلی سرکار نے نیا کشمیر کے اپنے روڈ میپ میں زرعی اصلاحات سے متعلق ایک قانون لاگو کیا جس کی رو سے کاشت کاروں اور بے گھر خاندانوں کو تقریبا اس ساری زمین کا مالک بنا دیا گیا جو ڈوگرہ دور میں زیادہ تر غیر مسلموں کی جاگیریں تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنہ 50 میں جموں کشمیر کی 22 لاکھ ہیکٹر اراضی پر محض 396 جاگیرداروں کا قبضہ تھا جبکہ سات لاکھ کشمیری مسلمانوں کے پاس کوئی زمین یا جائیداد نہیں تھی اور جموں میں ڈھائی لاکھ نچلی ذات والے ہندو بے گھر اور بے آسرا تھے۔نیشنل کانفرنس کے سرکردہ کارکن فیصل میر کہتے ہیں کہ اندرونی خود مختاری اور زرعی اصلاحات کے دونوں اقدام دہلی سرکار میں موجود بعض سیاست دانوں اور چند با اثرکشمیری پنڈتوں کو پسند نہیں آئے تھے، جس کی سزا اس خطے کو پہلے نو اگست 1953 کو اور پھر پانچ اگست 2019 کو دی گئی۔بی جے پی جموں و کشمیر کو واپس ڈوگرہ دور میں لے جانا چاہتی ہے اور بلڈوزر سے زمین اور جائیداد چھیننا اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔سابق مقامی حکومت نے ایک اور قانون سازی روشنی ایکٹ کے تحت ان تمام افراد کو سرکاری زمین کا مالک قرار دیا، جن کے پاس گھر یا زمین نہیں تھی یا جہاں پر گھاس چرائی کی زمین خالی اور بے کار پڑی تھی۔روشنی ایکٹ کے تحت زمینوں کی تقسیم اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پر عدلیہ نے کئی سوالات اٹھائے اور حکومت سے اس کی جانچ کرنے کی سفارش کی تھی۔
مقامی انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ ناجائز قبضے اور تجاوزات کے خلاف بل ڈوزر استعمال کر رہی ہے اور اس کا ہدف بد دیانت سیاست دان اور لینڈ مافیا ہے مگر عوامی حلقوں کے مطابق بیشتر علاقوں میں غریب غربا کے مکان یا جھونپڑیاں اس کی زد میں لائی جارہی ہیں۔سماجی کارکن نذیر احمد کہتے ہیں کہ غریب متاثرین محتاط انداز میں ان کارروائیوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ سکیورٹی فورسز بغیر کسی وجہ کے انہیں حراست میں لیں گی اور پھر اپنے عزیزوں کا پتہ لگانے میں ہمیں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔سماجی کارکنوں کے ایک گروپ نے بلڈوزر پالیسی کے خلاف دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج اور بھوک ہڑتال شروع کی ہے، جس کی قیادت سرکردہ سماجی کارکن وقار ایچ بھٹی کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بل ڈوزر پالیسی خطے کا مسلم کردار ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے۔ کشمیریوں کی زمین پر انڈیا کے غیر مسلموں کو بسانے کا عمل جاری ہے۔ ہندوتوا نے ہندو راشٹر کا جو خواب دکھایا ہے وہ اگلے پارلیمانی انتخابات کے اسی بیانیے پر منحصر ہے۔بڑی خبر یہ ہے کہ تین برس کی پر اسرار خاموشی کے بعد پہلی بار کشمیری تاجروں اور عوامی حلقوں نے ہمت کرکے دکانیں بند رکھیں اور احتجاجا ہڑتال کی۔