نقل وحرکت کے ذرائع کی قابل تجدید ایندھن پر منتقلی ناگزیر ہے، ماہرین

اسلام آباد(صباح نیوز) مومیاتی تبدیلی کے پیش نظر صاف اور سسستی توانائی کے استعمال کو فروغ دینا وقت کی غرورت ہے ۔ان خیالات کا اظہارپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام قابل تجدید توانائی کے حصول کیلئے خود کار نقل وحمل کے ذرائع کے حوالے سے اصلاحات کے موضوع پر مقامی ہوٹل میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

نیپرا کے مشیر (سی ٹی بی سی ایم) گل حسن بھٹو نے کہا کہ 1992 سے نیپرا بجلی کی مارکیٹ کو مسابقتی بنانے میں ناکام رہا ہے لیکن سی ٹی بی سی ایم اور پاور ویلنگ کے ذریعے ان رکاوٹوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہیلنگ توانائی کو پیداوار سے لے کر پوائنٹ آف ڈیمانڈ تک پہنچا کر طلب کو پورا کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نیلامی اور دوطرفہ معاہدوں کی وجہ سے صارفین کیلئے قیمتوں میں کمی ا ور ایک مربوط نظام کی منصوبہ بندی بھی ہوگی۔

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے منیجر مارکیٹ ڈیزائن اینڈ ڈویلپمنٹ احمد تنویر قاضی نے کہا کہ سی ٹی بی سی ایم تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصفانہ اور سستی بجلی کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے ۔ متبادل توانائی ڈیولپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی بی) کے عقیل جعفری نے کہا کہ مستقبل میں تمام شعبوں کو توانائی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے قابل تجدید توانائی بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس سلسلے میں وہیلنگ ایک اہم عنصر ہوگا۔ایس ڈی پی آئی کے سینئر ایڈوائزر ڈاکٹر حسن داود بٹ نے پاکستان میں توانائی پیدا کرنے کے تمام ذرائع کوpower wheeling میں شامل کرکے قانونی اور ریگولیٹری مسائل حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت اور پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔شمس پاور لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو عمر ملک نے کہا کہ سی ٹی بی سی ایم پاکستان میں کمرشل اور صنعتی شعبے کو سستی بجلی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاور ویلنگ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنز کو قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کرکے اپنے آپریشنز کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے درمیان چارجز پر اختلاف پاور ویلنگ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے بین الاقوامی اعداد و شمار کے ساتھ بینچ مارکنگ کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

کے الیکٹرک کی جنرل منیجر (اسپیشل پروجیکٹس) عالیہ ادریس نے کہا کہ کے الیکٹرک بجلی کی پیداوار، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم 2030 تک 30 فیصد بجلی قابل تجدید توانائی کے ذریعے فراہم کریں گے۔ صوابی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل محمد سلمان خان نے کہا کہ کوویڈ 19 کے بعد سے بجلی اور صنعتوں کی پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر قیمتوں، پالیسی اور ریگولیٹری خامیوں سے دوچار ہے اور صنعتی پیداوار کو زیادہ پائیدار بنانے کے لئے ریگولیٹری اور پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ایس ڈی پی آئی ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے تجویز پیش کی کہ ملک کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کے لئے اقتصادی زونز اور صنعتی شعبے کے لئے وہیلنگ کو ترجیح دی جانی چاہئے۔خیبر پختونخوا انرجی ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے صفدر حیات نے کہا کہ کے الیکٹرک کے ساتھ بجلی کے آف ٹیکنگ منصوبوں پر بھی بات چیت جاری ہے اور 2030 تک 1000 میگاواٹ پاور ویلنگ کے ذریعے سسٹم میں داخل کی جائے گی۔

سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو آفیسر عائشہ خان نے پاکستان میں کلین انرجی ٹرانزیشن کے نیٹ ورک کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجراکا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ توانائی معیشت پر سب سے بڑا دباو ہے اور موسمیاتی تبدیلی صاف اور سستی توانائی کی طرف منصفانہ منتقلی کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ انہوں نے چھوٹی مداخلتوں اور پالیسیوں اور قواعد و ضوابط کو بڑھانے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔