کراچی(صباح نیوز)گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ ڈالرز دیکھ کر امپورٹ کا فیصلہ کرتے ہیں، اگلے ہفتے سے ڈالرز آئیں گے تو زر مبادلہ کے ذخائر بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
ایف پی سی سی آئی میں خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ ہمیں کاروبار کو سہولت دینی ہے، کرنٹ اکاونٹ خسارے کے سبب اقدامات کرنے پڑے، ہماری امپورٹس کم ہوئی ہیں، 33 ہزار ایل سیز کے کیسز کلیئر کیے ہیں، ایل سی کو جانچنے میں کافی وقت لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکس سے کہا ہے کہ خوراک، ادویات اور تیل کو ترجیح میں رکھیں، ایکسپورٹ کے لیے امپورٹ مال کو ترجیح دی ہے، زرعی شعبے کے لیے امپورٹ میں سہولت پیدا کر رہے ہیں، مزید ڈالرز آتے ہی مزید امپورٹس کو سہولت دینے کا منصوبہ ہے، ڈالرز کو دیکھتے ہوئے ہی امپورٹ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ اگر امپورٹرز ڈالر کا بندوبست کرتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیں ہو گا، ایکسپورٹرز کو اپنے ڈالرز سے امپورٹ کا بندوبست کرنے کی اجازت ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ مال بلا اجازت امپورٹ کے سبب بھی پورٹ پر پھنسا ہوا ہے، شرحِ سود کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی ایف پی سی سی آئی آمد، صنعتکار دوران گفتگو رو پڑے
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کراچی میں ایف پی سی سی آئی پہنچ گئے، اس موقع پر ایک صنعت کار ان سے گفتگو کے دوران رو پڑے۔اس موقع پر صنعت کاروں نے اپنے دکھڑے گورنر اسٹیٹ بینک کے سامنے رکھ دئیے اور مطالبہ کیا کہ بند ہونے والی صنعت کا سود اسٹیٹ بینک اپنے ذمے لے۔
سینئر صنعت کار سلیم بکیا گورنر اسٹیٹ بینک سے ملازمین کو نکالنے کا ذکر کرتے ہوئے رو دیے اور کہا کہ 950 ملازمین میں سے صرف 350 رہ گئے، بیٹے نے کہا مزید 100 ملازمین فارغ کرنا ہوں گے۔گورنر اسٹیٹ بینک سے گفتگو کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان شیخ نے کہا کہ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اسٹیٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
سابق صدر ایف پی سی سی آئی ناصر مگوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک میں بیٹھے افراد خود کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سمجھتے ہیں، یہی صورتِ حال رہی تو مارچ تک ہنگامے پھوٹ پڑیں گے، اوپن اکاونٹ میں ڈالر کی منتقلی کی اجازت دی جائے، جب مر رہے ہوں تو مرا ہوا بھی حلال ہو جاتا ہے، ایران سے یورپ اور بھارت بارٹر ٹریڈ کر رہا ہے، اس طرح کروڑوں ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں، سپلائی چین نہ کھلی تو بے روزگاری کا سیلاب آئے گا، رمضان میں دالیں 1 ہزار روپے کلو ہو جائیں گی، شرح سود کا مہنگائی سے کوئی تعلق نہیں، پاکستان میں بہت ڈالرز ہیں، اسٹیٹ بینک انہیں تلاش کرے۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق صدرانجم نثار نے کہا کہ بحران کے حل کے لیے وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے پاس کوئی پالیسی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کمرشل بینکس سے ملا ہوا ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لوگ فارغ کیے جا رہے ہیں، بینکس سے ڈالر کے تین تین ریٹس دیے جا رہے ہیں۔
سابق صدر ایف پی سی سی آئی زکریا عثمان نے کہا کہ ڈالرز کی اپنے طور پر انتظام پر کھلی امپورٹ کی اجازت دی جائے، ملک انارکی کی طرف جا رہا ہے۔صنعت کار انجینئر جبار نے کہا کہ مفتاح اسماعیل نے اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں اپنے 2 دوستوں کو ڈلوایا، 64 لوگ جنیوا جاتے ہیں اور بڑے ہوٹلوں میں رہتے ہیں۔
شبیر منشا چھرہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے افسران ایف پی سی سی آئی رہنماؤں کی فون کالز تک نہیں اٹھاتے۔خرم سعید نے کہا کہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے بھارت سے سستا مال منگوایا جائے، ایکسپورٹرز کے ڈالرز کو مارکیٹ ریٹ پر لیا جائے۔ٹمبر مرچنٹ شرجیل گوپلانی نے کہا کہ دو ماہ اسٹیٹ بینک سے رابطے کرتے رہے مگر کوئی جواب نہ ملا۔