قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں اسلام آباد میں بچوں سے بھیک منگوانے میں 50گینگزسرگرم ہونے کا انکشاف

اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے اسلام آباد میں بچوں سے بھیک منگوانے کے لئے 50گینگزسرگرم ہیں، پولیس بھی ان سے ملی ہوئی ہے ، باآسانی ان گینگز کے افرادکے ضمانتیں ہوجاتی ہیں، کمیٹی ارکان نے اسے وزارت داخلہ انتظامیہ اور پولیس کی ناکامی قراردے دیا ،بچوں کی کمیشن کی سربراہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ گینگزکے خلاف کاروائی کے لئے اب تو انتطامیہ پولیس کو بھی آگاہ کرنے سے گریز کرتی ہے کیوں کہ ان گینگزکو پہلے سے اطلاع مل جاتی ہے،  سندھ سے خیبرپختونخوا بھی ایک گینگ کو پہنچادیا گیا ہے ،

اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے مجموعی طور پر قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے مرکزی اور صوبائی ارکان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشین دفاتر تک محدودہیں سیلاب سے متاثرہ بچوں کی حالت زار کے بارے بھی یہ ادارے لاعلم ہیں عالمی اداروں کو خوش کرنے کے لئے بس نمائشی طور پر قانون سازی کی جارہی ہے گھر گھر بچہ نشہ کا عادی ہورہا ہے ۔منگل کوقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس چیئرپرسن مہرین رزاق بھٹوکی صدارت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔

قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کے مرکزی اور صوبوں میں موجودحکام کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا جے یو آئی کی رکن عالیہ کامران نے  اسلام آباد میں جبری مزہب کی تبدیلی سے متعلق قانون سازی کے شور کو بھی بلاجواز قراردے دیا کیونکہ وفاقی دارلحکومت میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر ہے ماضی میں صرف ایک واقعہ ہواتھا۔  قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی چیئرپرسن نے اعتراف کیا کہ اسلام آباد میں بچوں سے جبری مشقت بھیک مانگنے والے بچوں کا کوئی ڈیٹا موجودہی نہیں ہے۔کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ  قومی کمیشن برائے حقوق اطفال  سے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں ۔

کمیٹی نے صوبوں میں بچوں کے پارلیمانی کاکس بنانے کی سفارش کردی ہے ۔کمیٹی  نے بچوں سے متعلق قانون سازی صوبوں اور مرکز میں علمدرآمد کے لئے وزیراعظم اور وزراء سے رابطوں کا فیصلہ کیا ہے ۔ارکان نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کی حالت زار انتہائی خراب ہے کسی کوکوئی پروا نہیں ہے کمشین بھی دفاتر اور رپورٹس کی تیاری تک محدود ہیں ۔صوبوں میں چائلڈپروٹیکشن اتھارٹی بھی  غیر فعال ہیں ۔کمیشن میں  کے پی کے رکن نے انکشاف کیا کہ صوبائی اسپیکر نیں چائلڈپروٹیکشن اتھارٹی کا نوٹفیکش ہی جاری نہیں کیا۔

کمیٹی نے دیگر قومی معاملات کے طرح بچوں کے لئے  جامع مرکزی وصوبائی پالیسی سازی کی سفارش کی ہے ۔جیلوں میں قید کم عمر قیدیوں کے بارے میں رپورٹ طلب کرلی گئی ہے ۔ کمیٹی نے بچوں سے متعلق قانون سازی پر عملدرآمد کے لئے  مرکز اور صوبوں   میں نگران کمیٹیاں بنانے کی سفارش بھی کی ہے ۔کمیٹی نے فوری طور پر مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کی صحت تعلیم اور سماجی تحفظ سے متعلق اقدامات کی سفارش کردی ہے ۔بچوں کے عالمی کنونشنز کے حوالے سے پلان آف ایکشن بنانے کی بھی سفارش کی گئی ہے ۔صوبوں اور مرکز میں ان معاملات پر قریبی رابطوں کے لئے  بین الصوبائی کمیٹی برائے چائلڈ پروٹیکشن بنانے کی سفارش بھی کردی گئی۔

اسلام آباد میں  لاوارث بچوں کی کفالت کے لئے کوئی پناہ گاہ نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وزارت انسانی حقوق اور وزارت تعلیم کی اتنی عمارتیں ہیں کسی کو بھی بچوں کے لئے مختص کیا جاسکتا ہے ۔اسلام آباد میں بچوں سے متعلق سرگرمیوں کو تمام وزارتوں اور اداروں کو مربوط بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ بعض ارکان نے یہ بھی شکایت کی کمیشن کے بعض ارکان اپنی این جی اوز بھی چلارہے ہیں  ان کی توجہ کمیشن کی بجائے اپنی این جی اوز پر ہے ۔کمیٹی نے اس حوالے سے پنجاب بشمول کمیشن منیارٹی رکن کی کارکردگی اظہار ناپسنددیدگی  کیا ہے ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں لاورث بچے ہیں ۔کوئی چائلڈ پروٹیکشن ہوم نہیں ہے۔جگہ جگی سرکاری عمارتیں خالی پڑی ہیں مگر ریاست کی طرف سے  مستحق بچوں کے حوالے سے زمہ داری نہیں ادا کی جارہی ہے۔اس ضمن میں اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے کو طلب کرلیا گیا ہے ۔

ارکان کمیٹی نے اسلام آباد میں بچوں میں منشیات کے بڑھتے رحجان پر اظہار تشویش کیا گیا ہے عالیہ کامران اور دیگر ارکان نے کہا کہ ہر گھر کا بچہ نشہ کرنے لگا ہے کوئی ڈیٹا بھی نہیں ہے ۔ بس رپورٹس نمائشی طور پر تیار کر لی جاتی ہیں بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بچوں میں منشیات پھیلانے میں کون ملوث ہے وزارت داخلہ کیا کررہی ہے سکولوں کالجز یونیورسٹی ہر جگہ منشیات پہنچ رہی ادارے کہاں ہیں  ۔ چائلڈپروٹیکشن  کے اداروں سے بھی  کمیٹی مطمئن نہیں ہے ۔

کمیشن کی سربراہ نے کہا کہ جبری مشقت اور بھکاری بچوں کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے ۔اسلام آباد میں کوئی سروے بھی نہیں کیا گیا جب کہ ایڈوائزری بورڈز بھی نہیں بن سکے  وسائل  موجود ہیں نہیں ہیں  ہر  متعلقہ ڈیپارٹمنٹ وزارت نے بچوں کے لئے کام کرنا تھا کچھ پتہ نہیں کوئی کیا کررہا ہے  ۔ بچوںسے متعلق قانون سازی کے رولز کی منظوری میں حکومتیں دلچسپی نہیں لیتی عدلیہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ وزارتیں اور محکمے تعاون نہیں کرتے۔کمیشن کی سربراہ اور ارکان نے اعتراف کیا کہ آج تک سٹریٹ چلڈرن سے کوئی نہیں مل کوئی متاثرہ علاقوں میں بھی نہیں گیا۔

کمیشن میں بچوں کے نمائندوں نے بتایا کہ بھیک مانگنے والے بچوں نے بتایا کہ کما کر گھر نہ جائیں تو والدین گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے ہم نے ہر صورت کما کرجانا ہے کمیشن کی سربراہ نے کہا کہ ان بچوں کو ٹھیکدار کو بھی  بھتہ دینا ہوتا ہے  ان بچوں کی مجموعی معاشی کفالت اور والدین کے لئے مالی ترغیب کا پروگرام بنانا ہوگا کیونکہ پنجاب میں غریب والدین کے بچوں کو وظائف دیئے جاتے ہیں اسلام آباد میں بچوں کے حوالے سے ایک بھی اقدام نہیں کیا دوسالوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں ۔ کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ لیبرڈیپارٹمنٹ، احساس پروگرام ،بی آئی ایس پی کوئی ان بے بس بچوں کے لئے نہیں ہے۔اسلام آباد میں بے بس بچوں کا کوئی سماجی معاشی تحفظ نہیں ہے ۔وزارت انسانی حقوق بھی دفاتر تک محدود ہے ۔

چیئرپرسن نے کہا کہ بچے ریاستی سرپرستی سے محروم ہیں ۔ملک بھر کے تمام بچوں کے حقوق یکساں ہیں۔ چائلڈپروٹیکشن کمیشن کی سربراہ نے  انکشاف کیا کہ اسلام آباد بچوں سے جبری مشقت کے لئے خاندانوں کی صورت میں پچاس گینگز سرگرم ہیں بھیک منگوانا ٹھیکداری سسٹم بن گیا ہے  پولیس بھی ملوث ہے کسی کی گرفتاری ہو بھی جائے با آسانی باہر آجاتے ہیں  اب توڈپٹی کمشنر چھاپوں کے سلسلے میں پولیس کو آگاہ ہی نہیں کرتے کیونکہ بھیک منگوانے  والے  ٹھیکدارکو پہلے ہی سے پتہ چل جاتا ہے کے پی کے میں بھی سندھ سے ایک گینگ خاندان کی صورت میں پہنچ چکا ہے  ۔

چیئرپرسن مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ہم کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ۔ یو این او کے بچوں سے متعلق قانون سازی کی تفصیلات پیش کی جائیں مکمل طور پر ڈیٹا فراہم کرنے میں مرکز اور صوبوں کے نمائندے ناکام رہے ہیں وزارت انسانی حقوق بھی بے بس بچوں کی فوری بحالی سے متعلق مطمئن نہ کرسکی پلان آف ایکشن بنایا جائے۔ مرکز صوبوں کے کمیشن اوروزارت انسانی حقوق کے بچوں کے تحفظ کے معاملات پر مرحلہ وار الگ الگ کارکردگی کا جائزہ لیا جا گا اور وزیراعظم وزراء اعلی کو آگاہ کیا جائے گا  ۔