اسلام آباد (صباح نیوز) قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات میں وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں شوگر اور گندم سمیت ہر صنعت میں مافیاز آپریٹ کر رہے ہیں جب تک ان پر سخت ہاتھ نہ ڈال گیا کسانوں کاشتکاروں کے لئے کچھ نہیں کر سکتے،کسان پیکیج کا بھی تاحال نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا،وزیراعظم سے اس ایشو پر بات کروں گا ۔
کمیٹی کا اہم اجلاس پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔کمیٹی اجلاس میں چیئرمین کمیٹی کے انتخاب کو عمل میں لایا گیا۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے۔کمیٹی پانچ نکاتی ایجنڈے کا جائزہ لے گی ان میں گنے کے کاشتکاروں کے مسائل، گندم سمیت زرعی مصنوعات کی قیمتوں کا جائزہ اور زرعی اجناس کی بروقت درآمد کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔کمیٹی ارکان نے گنے کا کرشنگ سیزن جلد شروع کرنے اور رکاؤٹ ڈالنے والی شوگرملزکے خلاف کاروائی کا مطالبہ کردیا ۔ رکن کمیٹی نواب شیرنے کہا کہ ایک شوگر ملز کے علاوہ تمام شوگر ملیں بند پڑی ہیں،کرشنگ سیزن میں تاخیر سے گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے، کاشتکار گنا فروخت کرکے گندم کی بوائی شروع کرتا ہے۔
کمیٹی ارکان نے کہا کہ گنے کی بروقت قیمت نہ ملنے سے زمیندار مارا جاتا ہے، وزارت فوڈ سیکیورٹی گنے کے کاشتکاروں اور شوگر ملز کے مسائل کا حل نکالے۔ زرعی ملک میں گندم کی امپورٹ پریشانی کی بات ہے،گندم کی قیمت کا بروقت تعین کرکے گندم کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے،معین وٹو رکن کمیٹی نے کہا کہ سندھ نے گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کی، وفاقی حکومت شاید 3 ہزار روپے فی من ریٹ مقرر کرنے جارہی ہے۔
کمیٹی ارکان نے کہا کہ گندم کی امدادی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر ہونی چاہیے۔وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی طارق بشیر چیمہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شوگر اور گندم سمیت ہر صنعت میں مافیا آپریٹ کر رہا ہے،جب تک ان پر سخت ہاتھ نہ ڈال گیا کچھ نہیں کر سکتے،چینی برآمد کرنے کی صرف خبر آنے سے چینی 25 سے 30 روپے کلو مہنگی ہو جائے گی، شوگر ایڈوائزری بورڈ کا چیئرمین بنتے ہی سر پر اولے پڑے، پوری شوگر انڈسٹری چینی کی برآمد کی اجازت کا مطالبہ لے کر آگئی، ان کے پاس سرپلس چینی ہے لیکن سیلاب کے باعث نئی پیداوار نہیں ہے،
چینی برآمد کی اجازت دی تو مقامی قلت پیدا ہو جائے گی،ایکسپورٹ کی اجازت دی تو وزیر سمیت سب مقدمات بھگت رہے ہونگے،کرشنگ سیزن ابھی تک شروع نہیں ہوا،چینی ایکسپورٹ کرنے کے بعد درآمد کرنا پڑے گی۔انھوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے 40 فیصد گنے کی قلت ہے،حکومت نے کسان پیکیج کا اعلان کیا تاہم ابھی تک نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا، منگل کو (آج ) وزیراعظم شہباز شریف سے اس ایشو پر بات کروں گاانھوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی قرضے حقیقی کسانوں تک نہیں پہنچ پاتے،بااثر لوگ قرضہ لے کر نئی گاڑیاں خرید لیتے ہیں،زرعی قرضے لے کر بچوں کی شادیوں پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے،شوگر ملز مالکان کے بجائے کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔