اسلام آباد(صباح نیوز)اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس گیارہ اور بارہ جنوری کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والا ہے، جس میں مسلم خواتین کی تعلیم اہم موضوع ہو گا۔ تقریبا تیس ممالک کے ارکان نے اس میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے،جرمن ٹی وی کے مطابق اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا اس برس کا پہلا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت میں ہونے والا ہے، جس کا اہم عنوان “مسلم کمیونٹیز میں لڑکیوں کی تعلیم: چیلنجز اور مواقع ” ہے۔ اطلاعات کے مطابق مسلم دنیا میں خواتین کی تعلیم پر بات چیت کے لیے یہ خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کی حمایت یافتہ ایک تنظیم رابطہ اسلامی نے اس کی تجویز پیش کی تھی، جس پر اسلام آباد نے اجلاس کی میزبانی پر رضامندی ظاہر کی۔ اس اجلاس کے دوران افغان طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر عائد کی گئی پابندیوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پاکستانی حکام کے مطابق او آئی سی کے رکن ممالک کے تقریبا 30 وزرا نے اس دو روزہ تقریب میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ کانفرنس کا تفصیلی ایجنڈا ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے، تاہم کہ اس کے مطابق اس کا ایک بنیادی مقصد افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی پر نظر ثانی کے لیے دباو ڈالنا ہے۔ اگست 2021 میں افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت کے صدر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت بغیر کسی مزاحمت کے بکھر گئی تھی۔ طالبان نے ابتدا میں اصلاحات کا وعدہ کیا تھا، تاہم انہوں نے فوری طور پر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔
پہلے امید کی جا رہی تھی کہ یہ ایک عارضی قدم ہے اور موسم سرما کے وقفے کے بعد اسکول دوبارہ کھل جائیں گے۔ تاہم پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے بجائے سخت گیر حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں مزید سخت کر دیں۔عالمی برادری اور مسلم دنیا کی جانب سے مسلسل مطالبات کے باوجود طالبان کی حکومت میں اس حوالے سے کوئی نرمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور حال ہی میں اس نے پابندی میں توسیع بھی کی ہے۔مسلم اسکالر طالبان کے اس موقف سے متفق نہیں ہیں اور اسے مسترد کرتے رہے ہیں۔ اب او آئی سی کے ارکان اسلام آباد میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ ایسی پالیسیوں کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائی جا سکے۔رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، “واضح طور پر یہ کانفرنس کے دوران ہونے والی بات چیت کی توجہ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔”ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا طالبان حکومت کو کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے یا نہیں۔ تاہم ایک اہلکار نے کہا کہ انہیں بھی اس کا حصہ بننا چاہیے، تاکہ ان کی شرکت کم از کم انہیں اپنی سخت پالیسیوں کے بارے میں مسلم دنیا کے تناظر میں بصیرت فراہم کر سکے۔پاکستان اس کانفرنس کی میزبانی ایک ایسے وقت کر رہا ہے، جب سرحد پار سے دہشت گردانہ حملوں کے سبب افغانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ سرحد کے اس پار ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے والے حالیہ پاکستانی فضائی حملوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں جانب سے سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔