آجکل جس محفل میں جائیں عجیب طرح کی پریشانیوں، پشیمانیوں شکایتوں اور بے یقین رُتوں کا رونا طبعیت کو بوجھل کر دیتا ہے۔ہر محفل میں ان کے تدارک کا سوال بھی ہوتا ہے تو آئیے آج دیکھتے ہیں کیسے ہر گھڑی اذیتوں میں جکڑے وجود کو رہائی دلا کر نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسان صرف ڈھانچے میں پروئے گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں جس کو سانس لینے کیلئے ہوا، زندہ رہنے کیلئے غذا، برہنگی چھپانے کیلئے مخملیں ریشے، موسموں کے جلال اور دشمنوں کی چال سے محفوظ رہنے کیلئے چھت اور چاردیواری ہی مطلوب ہوتی ہے۔یہ سارے مطالبات جبلت کی حد تک درست کہ سماج کی ریشہ دوانیوں میں پروان چڑھتی زندگی کیلئے چارہ اور قلعہ ضروری ہوتا ہے مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہوس کے بھیانک تعصبات وجود پر حاوی ہو کر ہمیں چہار سمت سے اپنی حدود میں یوں مقید کرلیتے ہیں کہ ہماری آزادی جسم کی جبلی ضروریات پوری کرنے تک باقی رہ جاتی ہے۔رفتہ رفتہ ہم اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں اور دائرہ تنگ ہوتا جاتا ہے۔حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ ہم اپنی بنائی دیواروں میں چُن دئیے جاتے ہیں۔جہاں پیٹ کا حجم بڑھتا ہے،چربی اسقدر پھلتی پھولتی ہے کہ نظر کا آئینہ دھندلا جاتا ہے اور سانس کی ناہمواریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔مصنوعی طاقتوں کے حامل کیپسولوں کے پھکے ہمارے ہر کھانے کے مینو میں شامل ہو جاتے ہیں مگر ہم ایک لمحے کیلئے رکنے ،سوچنے اور قید سے نجات کی تدبیر نہیں کرتے۔ نتیجتاً ہمارا جسم مضمحل ہو کر ایسے تار تار ہو جاتا ہے کہ رفوگری ممکن نہیں رہتی۔باقی زندگی محتاجی اور بے بسی میں گزارنا مقدر بن جاتا ہے۔ آخر یہ سارا کھیل کیا ہے۔ آج کا انسان اس قدر بے رحم ماحول اور لاتعداد بیماریوں کا شکار کیوں ہے۔ پہلے کسی کو ایک بیماری لاحق ہوتی تھی اس کا علاج اور پرہیز چلتا رہتا تھا۔اب بیماریوں کا ایک مکمل سلسلہ ہے،ایک ایسا پیکیج جس میں کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں۔ ہر کونے کھدرے میں کوئی نہ کوئی زہر دبا ہوا ہے۔ اندر لگی دیمک حیات کے شجر کو کھوکھلا کرتی جارہی ہے مگر ہم ظاہری علاج معالجے اور بندوبست میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ہم سب کچھ جانتے ہوئے اپنی روش نہیں بدلتے، دل کی بات نہیں مانتے، کسی وقت بھی رسی کھنچنے والا رکاوٹ کو سڑک پر یوں سامنے لائے گا کہ ہم منہ کے بل گر پڑیں گے۔آئیے اس سے پہلے اپنا علاج شروع کریں، اپنے باطنی طبیب سے مشاورت کریں۔ اُس کا حکم مانیں، اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ وہ ہمیں توازن قائم رکھنے کو کہے گا۔ جسم کو خوارک کا تہ خانہ بنانے سے روکے گا۔ہمارے ملک میں لذیز اور صحتمند رکھنے والے پَھلوں کی بھرمار ہے۔ہر موسم میں کوئی نہ کوئی سستا پھل بھی میسر ہوتا ہے۔ ہم چربی اور غیر معیاری تیل میں تَلی ہوئی خوارک کھانے کے عادی ہو چکے ہیں جس سے چھٹکارے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی غذائیں ہمارے وجود میں چربی کی دیواریں کھڑی کرکے ہماری زندگی کو ناہموار بناتی ہیں۔جن سے بے شمار غلاظتیں جنم لیتی ہوئی بڑی بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں۔کم کھائیں، خالص کھائیں، تَلی اشیا کی بجائے بھنے چنے کھا لیں۔ خود کو ان سوالوں اور پریشانیوں سے آزاد کریں جن کا حل آپ کے پاس نہیں۔خواہ مخواہ کُڑھنے کی بجائے رستہ بدل لیں۔ تکلیف کا باعث بننے والے دوستوں اور رشتہ داروں سے فاصلہ کرلیں۔مجبوری کے بندھنوں سے خود کو آزاد کر لیں۔اچھی موسیقی سنیں، تخیل کی اڑان پر لیجانے والی کتابیں پڑھیں۔ تاریخ، ثقافت اور محبت کے موضوعات پر بنی فلمیں دیکھیں، کُھلے آسمان تلے رکھی زمین پر ننگے پاؤں چلیں۔ہوائوںکے گیت سنیں،دن میں کچھ پل بچوں کی صحبت میں خود کو ازاد چھوڑ دیں۔ بچوں کیساتھ بچہ بن کر ہنسیں۔ انسانیت کا درد محسوس کریں اور اس کے معاوضے کیلئے جو ممکن ہو ضرور کریں۔ دل سے دوستی کریں وہ سوچ میں شریانوں اور وریدوں کا جال بچھا دیگا اور وجود کو پاکیزگی کی طرف لیکر جائے گا تو روح سے ہم آہنگی بڑھے گی۔ کثافت سے نجات ملے گی، لطافت کا راج ہوگا تو نظر کا آئینہ بھی چمکدار ہوگا۔کائناتی مسائل پر کڑھنے کی بجائے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خیر اور شر دونوں حقیقتیں اور طاقتیں ہیں۔ دونوں کو موجود رہنا ہے۔ یہی کائنات کا خمیر اور نشوونما کا قائدہ ہے۔ آپ اپنی ذات میں خیر کو پنپنے دیں اور دنیا میں خیر پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہر واقعے کے ظہور میں کوئی منطق ہے۔ ہر آزمائش اور آفت کے پیچھے کوئی کوئی کوتاہی ہے۔ دعا اور شُکر کو وظیفہ بنالیں دیکھیں کیسے زندگی میں قرار آتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ