عرفان صدیقی کی گرفتاری انتظامیہ کی طرف سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مثالی نمونہ تھی،چیف جسٹس اطہرمن اللہ


اسلام آباد (صباح نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی گرفتاری انتظامیہ کی طرف سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مثالی نمونہ تھی۔ اس معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہئے اور ذمہ داروں کا محاسبہ کیاجانا چاہئے۔

ایمان زینب بنام وفاق پاکستان کیس کی 30 ستمبر کو ہونے والی سماعت کا تحریری آرڈر جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ عملی طور پر ابصار عالم ، مطیع اللہ جان اور اسدعلی طور کے معاملات بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔

یہ امر نہایت تشویشناک ہے کہ مذکورہ تمام معاملات کی چھان بین کرنے اور مجرموں کو سزا دینے میں وفاقی حکومت اب تک ناکام رہی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا ہے کہ مجرمانہ کارروائیوں کی کھلی چھوٹ اور سرکاری عہدیداروں کی اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت کا سلسلہ جاری ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے قرار دیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق بالخصوص آزادی اظہار رائے کے حق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی جبر کے تمام ہتھکنڈوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی جبر کے تمام ہتھکنڈوں کا محاسبہ کیاجانا چاہئے۔

حکم نامہ میں خاص طور پر سینیٹر عرفان صدیقی کا ذکر کیا گیا جنہیں جولائی 2019 کو نصف شب گھر سے اٹھایا گیا تھا۔ اگلے دن انہیں ہتھکڑی لگا کر ایک اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کیاگیا تھا جس نے عرفان صدیقی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کا معاملہ انتظامیہ کی طرف سے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کا کلاسک کیس ہے۔ اس معاملے کی مکمل چھان بین ہونی چاہئے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے آرڈر میں لکھا کہ کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیتے وقت وفاقی حکومت، ریاستی اہلکاروں کی غفلت اور بنیادی محکموں کی مذکورہ بالا خلاف ورزیوں کا جائزہ لے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے اہلکاروں کا تعین کرے اور مجرم پائے جانے والوں کا محاسبہ کرے۔