کشمیر اسمبلی انتخابی نتائج: تاریخ کے پہیہ کی واپسی……(2) افتخار گیلانی


تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دیگی مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادی کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ ان کے مرکزی راہنماوں نے غیر متوقع طور پر اس خطے میں کوئی قابل ذکر مہم بھی نہیں چلائی۔ ستم تو یہ ہے کہ راہول گاندھی نے وادی کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف کیمپین کی۔ جس کانگریسی امیدوار کے حق میں مہم چلائی وہ تیسرے نمبر پر آیا۔ جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کے ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادی کشمیر اور جموں کے مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔ وادی کشمیر میں ووٹروں نے یہ یقینی بنایا کہ آزاد امیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اسلئے انجنیئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا۔ انجنیئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اور مشکوک امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو امیدواروں کے انتخاب کیلئے نہایت کم وقت ملا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے 2015 میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادی کشمیر میں شکست کھا گئی ہے جہاں وہ 28 سے کم ہوکر تین نشستوں پر آگئی ہے۔جس بھی پارٹی کے امیدوار پر تھوڑا بھی شک تھا کہ اس کے تار نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،اس کو شکست ہوئی۔ بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادی چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے امیدوار کھڑے کر دئیے تھے اور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوڑی پونچھ کے پیر پنجال پٹی میںملا ہے۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے صرف ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لئے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کیلئے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنچال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوڑی، درہال، تھانا منڈی، پونچھ۔حویلی، مینڈھر اور سورن کوٹ میں بے جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس خطے کے کئی دورے کئے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے اور اسے بہتر کیا ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا 1000 سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی رہی ہے۔گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے،جہاں اس کے امیدوار فقیر محمد نے 7246 ووٹ حاصل کیے جبکہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے 8378 ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔ یہ انتخابات کشمیریوں کیلئے اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے اور آبادیاتی ساخت کو برقرار رکھنے کی سمت میں ’’کرو یا مرو‘‘ جیسی صورت حال تھی۔ 1996 میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو، فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لیکر میدان میں اتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔ ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کیلیے ایک طرح سے ون ون یعنی فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔وہ مسئلہ ان کا حل ہونے کا امکان ہے۔اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے ہے1975 میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کے گلیاروں تک رسائی فراہم کردی گئی تھی، یہ رسائی اب پھر معدوم ہو رہی ہے۔ نئی دہلی کیلئے اطمینان کا باعث یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہے۔ اس کے لیڈر بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرار داد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، وہ اقتدار میں برقرار رہنے کیلئے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ شاید محبوبہ مفتی یا انجنیئر رشید کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی وقت کوئی آئینی بحران کھڑا کرسکتے تھے۔اس لئے ان کو اقتدار سے دور رکھنا ضروری تھا۔ عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابق حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباو بنا سکتے ہیں۔ اس حکومت پر لیفٹیننٹ گورنر کی خاصی پکڑ ہوگی،وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی عوام کے تئیں سنجیدگی ظاہر کرے گی۔خیرتمام سٹیک ہولڈروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول میں کشمیری عوام کی آوازوں کو سنا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیںاور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو ان کا نام جلی حروف میں لکھا جائے گا ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دھل جائیں گے۔ (ختم شد)