اسلام آباد میں سیاست کی پچھل پیری۔۔۔۔تحریر کشور ناہید


تین دن کے اپنے اپنے گھروں میں حبس بے جا کے بعد، آج حکم آیا کہ راستے کھول دو۔ فون اور موبائل کھول دو۔ کیا ہورہا تھا۔ کیا سکندر کی فوجیں پورس سے لڑائی میں مصروف تھیں۔ کیا سرکار کو جو مطلوب تھا، وہ حاصل ہوگیا تھا، ان کے ساتھ کیاہوا جو اسلام آباد اور لاہور میں تمام طرح فوجی اور سپاہیانہ طمطراق کے باوجود پورس کو اپنے اپنے مراکز پر پہنچنے سے باز نہ رکھ سکے۔ یا شاید وہ لوگ جنہوں نے عوام کی یلغار نہ دیکھی اور نہ پڑھی۔ اس لئے عوام کی یلغار کا اندازہ تو پہلے بھی نہیں کرسکے تھے۔ اور تمام لوازمات مقابلے کی تیاری کے ساتھ میدان میں اتر گئے تھے۔ حاصل کیا ہوا؟ نقصان۔ تین دن کی محنت، روزینہ کمانے والوں کے گھروں میں چولھا ٹھنڈا تھا۔ نوکری پیشہ لوگوں نے خوشی خوشی آرام کیا اور اپنی مرضی کے پراٹھے کھائے۔ سرکار نے یہ سوچ کر کہ گھر کی بات ہے تین دن شور مچایا کہ شنگھائی کانفرنس میں کھنڈت ڈالنے کو یہ حربہ اختیار کیا گیا یہ سمجھے ہوئے تھے کہ جو کچھ سرکاری میڈیا پہ بیان کررہے ہیں۔ وہ اس کانفرنس میں آنے والے مہمانوں کی تو سمجھ میں نہیں آیا ہوگا۔ یہ بھی حملہ آوروں کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ اس طرح کی حرکتوں سے کس کو فائدہ ہوگا۔ پھر وہی ڈرامہ اس ٹارزن نے کیا جو پچھلی دفعہ کیا تھا۔ بعد میں بتایا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ڈی چوک سے معلوم نہیں کہاں گیا۔ پھر تیسرے دن چالیس منٹ کے لئے کے پی ہائوس آیا اور اپنی سیکورٹی کے حصار میں کہیں چلا گیا۔ یہ اعلان بھی مضحکہ خیز ہے کہ اگر قانون توڑنے والوں کو پکڑا نہیں جاتا تو پھر حکومت کیوں ہمارا اور اپنا وقت ضائع کررہی ہے۔

یہ وقت تو اسرائیل کی امریکی مدد سے غزہ کے علاقوں کو بے آب و گیاہ کرکے، لبنان کو اگلی منزل سمجھ کر بے روک ٹوک آگے بڑھ رہا ہے۔ لاکھوں بچوں کا خون کس کے سر لکھا جائے۔ یہ شداد کس بل بوتے پر یمن اور لبنان کی جانب پیجر اور ایسے راکٹ پھینک رہے ہیں کہ جو ہاتھوں میں پکڑے موبائل پھٹ رہے ہیں۔ کیا وہ اس طرح بڑھتا ہوا مصر کی سرحد تک پہنچ جائے گا۔ امریکہ کے جانے والے اور نئے آنے والے صدور نے نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے اور کسی نے بھی اسے تنبیہ نہیں کی۔ آخر دنیا بھر میں امریکی چوں چوں کا مربع ادھر یوکرین میں اور ادھر غزہ کے بعد لبنان میں صہیونیت کی مسلسل ایک سال سے بمباری اور خونریزی پر جماعت اسلامی اور پی پی پی نے 6اکتوبر کو ہی جلسے اور مظاہرے کرلیے کہ 7اکتوبر کو جب اس حملے کو جاری کیے پورا سال مکمل ہوگا تو حکومت سرکاری طور پر اس فرض کو نبھانے کے لئے تقریریں کرے گی۔ میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ نورالہدی نے میری بیزاری کو بڑھاتے ہوئے ایک نظم بھیجی جو آپ سب بھی پڑھ لیں۔

’’ہمیں خدا نے بلایا تھا/ کہو کیسی گزر رہی ہے/ ہم نے اپنے ہونٹ زبانیں اور دماغ اسکے حضور رکھ دیے/ عرض کیا/ اب ہمارے ملک میں یہ اب کسی کام کے نہیں/ انکے استعمال پر پابندی ہے/ یہ نعمت ہم تجھے واپس لوٹاتے ہیں/ بس دو آنکھیں اور ایک دل ساتھ لیجاتے ہیں/ دل ہی دل میں الائو بھرکاتے رہیںگے/ آنسو، الائو پر چھڑکتے رہیںگے۔‘‘

جیسا کہ ساری دنیا میں اسرائیل کے خلاف سڑکوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں لاکھوں لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ ہماری حکومت اجازت دے تو ساری سڑکیں ہمارے ہر گھر سے ہر عورت، ہر بچہ اور نوجوان بھرپور مظاہرہ کریں۔ لبنان میں بھی حملے بڑھتے رہیںگے ایک وہ حکومت جو فلسطین کے سربراہ کی حیثیت سے یو این میں خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے سال بھر میں کیا کیا۔ اپنے قتل ہوتے لاکھوں فلسطینیوں کے لئے نہ ان سے کسی نے پوچھا نہ وہ بولے۔ مگر ہمارے سارے سیاسی رہنمائوں نے یکجا اور یک آواز ہوکر فلسطین کے یتیم، بے گھر اور لبنان تک بڑھتے ہوئے سانپوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ بڑی حوصلہ افزا ہم آہنگی کے ساتھ رہنمائوں نے گفتگو کی اور فلسطین کی الگ ریاست کے لئے خاص کر مسلم ممالک کو جگانے کی کوشش کی۔ بہت پرسکون بات ہے کہ ایک لاکھ فلسطینی مصری حکومت کے پناہ گیر ہوئے ہیں۔ جیساکہ امریکہ میں نائن الیون منایا گیا تھا اور سب مرنے والوں کو خود صدر نے کھڑے ہوکر غمزدہ خاندانوں کے ساتھ کئی سال تک یہ المیہ دہرایا۔ اس طرح یاسر عرفات کے زمانے میں صابرہ شتیلا کیمپوں پر اسرائیلی حملوں کی اذیت کو کئی سال تک یاد کیا گیا۔ اب نہ یاسر عرفات نہ حسن نصراللہ اور نہ دیگر رہنما جو آئے وہ بھی شہید کردیئے گئے۔ مگر ایسے ماحول میں نیتن یاہو اپنی کامیابی کے ڈنکے بجارہا ہے۔

پاکستان میں آگے پیچھے بہت غیرممالک کے مہمان آرہے ہیں۔ کبھی مسجد نبوی کے امام آتے ہیں اور آج کل ڈاکٹر ذاکر نائیک آئے ہیں۔ جن کو سرکاری پروٹوکول بھی دیا گیا ہے۔ ہر چند مولانا جمیل اور مولانا اشرفی سرکاری تسبیح لئے ہر علما اور مشائخ کانفرنس میں میزبانی کرتے ہیں۔ ذاکر نائیک صاحب کے انڈیا میں تو پروگرام بند کردیئے گئے ہیں۔ ویسے اپنے ملک میں 40لاکھ مدرسوں کے عالم اور چاند دیکھنے والی کمیٹی کے ارکان کے علاوہ شریعت کورٹ کے فاضل حضرات موجود ہیں تو ڈاکٹر نائیک جیسے عالموں کی فی الوقت ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت جب کہ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو بے چین کیا ہوا ہے۔ کسی مسلمان ملک کے نمائندے آئیں تب بھی راستے بند، دفتر بند، اب پھر شوشہ ہے کہ شنگھائی کانفرنس کے باعث، پھر دفتر اور دیگر ادارے بند رہیںگے۔ پھر ضرورت ہی کیا ہے۔ حکم تو کہیں اور سے آتا ہے۔ آپکو صرف عمل کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سب فالتو لوگوں کو کسی ٹیکنیکل ادارے میں ضم کردیں۔ روزی وہیں سے اور شاید دوپہر کی روٹی بھی مل جائیگی۔ جہاں تک کام کی بات ہے تو وہ چلتا رہے گا۔ رہا ڈاکٹر ذاکر کا بیانیہ کہ میں لوگوں کو مسلمان بنانے کے مشن پر ہوں۔ شاید انکو پاکستانیوں کے مسلمان ہونے پر شبہ ہے۔ یہاں مولانا روم کی ایک حکایت سناتی ہوں۔’’مولانا روم سے پوچھا گیا کونسا میوزک حرام ہے، مولانا نے جواب دیا، امیروں کے کھانے کے برتنوں میں چلنے والے چمچوں کی آواز، اگر غریبوں کے کھانے تک پہنچے بس یہی میوزک حرام ہے‘‘۔

بشکریہ روزنامہ جنگ