غربت کے سمندر میں خوش حالی کے جزیرے ایک ساتھ موجود نہیں رہ سکتے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ غربت کے سمندر میں خوش حالی کے جزیرے ایک ساتھ موجود نہیں رہ سکتے۔ان مسائل پر قابو پانے کے لئے ترقی پزیر ممالک کو اپنے قرض، ترقی اور ماحولیاتی تغیر کے مسائل سے نمٹنے کے لئے مناسب مالی مدد حاصل کرنا ہوگی،ترقی پزیر ممالک کو درپیش ان مسائل سے نبردآزما ہوئے بغیر دنیا کی معیشت پائیدار شرح ترقی کی راہ پر واپس نہیں آسکے گی۔

جی 77 وزرا خارجہ گروپ کے پینتالیسویں سالانہ اجلاس سے ورچیول خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ منفرد نوعیت کے گوناں گوں مسائل کے درمیان جی 77 گروپ کی کامیاب قیادت کرنے پر میں گنی کے وزیر خارجہ اور چین کومبارک دیتا ہوں۔جنرل اسمبلی کے صدر اور سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے خطاب میں ان کے اہم کلمات پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ترقی پزیر ممالک کے لئے ان کی مسلسل حمایت قابل تعریف ولائق تحسین ہے۔

انہو ں نے کہاکہ اگلے سال اقوام متحدہ کے نظام کے اندر سب سے بڑے گروپ کی قیادت کے لئے پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنے پر ہم گروپ 77 کے تمام 134 ارکان اور چین کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔پاکستان اس گروپ کا بانی رکن ہے۔ ہم نے مشترکہ اہداف کے حصول اور جی 77 اور چین گروپ کے مفادات کے تحفظ کے لئے پختہ اور غیرمتزلزل انداز میں کاوشیں کی ہیں۔ نیویارک میں اس گروپ کی تین بار صدارت کا ہمیں اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ دنیا کو سہہ طرفہ مسائل کا سامنا ہے: کورونا عالمی وبائ؛ 2030 ترقیاتی ایجنڈے پر عمل درآمد اور ؛ ماحولیاتی تغیر سے لاحق خطرات ان میں شامل ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ترقی پزیر ممالک ان سہہ طرفہ مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور یہ 2030 کے لئے پائیدار ترقی کے اہداف(ایس۔ڈی۔جیز)کے حصول کی ان کی جدوجہد پر بری طرح اثرانداز ہوئے ہیں۔

امیر ممالک نے 26 ٹریلین ڈالر کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلنے اور معیشتوں کو چلانے کے لئے دئیے ہیں۔ترقی پزیر ممالک 4ٹریلین ڈالر کا عشرعشیر بھی جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی معیشتوں کی بحالی کے لئے ضرورت ہے۔ترقی پزیر ممالک کی معیشتوں میں اشیاکی فراہمی میں تعطل اور طلب کی بحالی نے عالمی غربت میں اضافہ کیا ہے جس سے دنیا کی 80 فیصد آبادی رکھنے والے ترقی پزیر ممالک کے غریبوں کی حالت زار مزید ابتر ہوگئی ہے اور قرض کے علاوہ لیکویڈٹی کے مسائل بھی لاحق ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہاکہ ترقی پزیر ممالک کو درپیش ان مسائل سے نبردآزما ہوئے بغیر دنیا کی معیشت پائیدار شرح ترقی کی راہ پر واپس نہیں آسکے گی۔ غربت کے سمندر میں خوش حالی کے جزیرے ایک ساتھ موجود نہیں رہ سکتے۔ان مسائل پر قابو پانے کے لئے ترقی پزیر ممالک کو اپنے قرض، ترقی اور ماحولیاتی تغیر کے مسائل سے نمٹنے کے لئے مناسب مالی مدد حاصل کرنا ہوگی۔ انہیں مساوی مالی اور تجارتی نظام بھی میسر ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ جی 77 اور چین کے گروپ کے آئندہ صدر کے طورپر پاکستان ترقی پزیر ممالک کے لئے ترقی کے مشترکہ ایجنڈے کے فروغ میں گروپ کے ارکان کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے پرامید وپرعزم ہے۔ اس ایجنڈے میں یہ اجزا شامل ہیں:قرض میں تخفیف(ترقی پزیر ممالک کے لئے 650 ارب کے نئے ایس۔ڈی۔آرز کی دوبارہ تقسیم)زیادہ رعایتی فنانسنگ(ترقی پزیر ممالک کی جانب سے ماحولیاتی سالانہ 100 ارب ڈالر کے فنانس کی موبلائزیشن)،ترقی پزیر ممالک سے اربوں روپے کے غیرقانونی سرمایہ کی ترقی پزیر ممالک کو ترسیل اور لوٹی دولت کی واپسی(مساوی اور کھلا تجارتی نظام پیدا کرنا جس میں جائز عالمی ٹیکس لاگو ہوں)

وزیرخارجہ نے کہاکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ان مسائل سے قطع نظر ترقی پزیر ممالک میں شرح ترقی حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے لیکن انہیں عالمی سطح پر مساوی شرح نمو اور ترقی کے واضح حدود و قیود کی ضرورت ہے تاکہ مساوات اور اجتماعیت کی حامل دنیا کا وعدہ عملی شکل اختیار کرے جیسا کہ پائیدار ترقی کے 17 اہداف میں تصور پیش کیاگیا ہے۔