نیشنل پریس کلب میں “اظہار رائے کی آزادی، جعلی خبروں کے معاشرے پر منفی اثرات اور میڈیا کے کردار” پر آگاہی سیسشن


اسلام آباد(صباح نیوز) اکانوٹیبیلیٹی لیب پاکستان کی طرف سے نیشنل پریس کلب میں اسلام آباد کے صحافیوں کے لئے اظہار رائے کی آزادی، جعلی خبروں کے اثرات اور میڈیا کے کردار پر ایک آگاہی سیشن کا اہتمام کیا گیا۔

سیشن کے مقررین نے معاشرے اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں پر جعلی خبروں اور غلط معلومات کے بنیادی محرکات اور ان کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔آگاہی سیشن کے لئے سپیکرز میں ڈین سوشل سائینسز اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، ڈاکٹر ظفر اقبال اسلام آباد، ڈپٹی ڈائرکٹر پریس انفارمیشن ظل ہما، بیورو چیف ڈان نیوز افتحار حسین شیرازی اور سابق سینئیر وائس پریزیڈنٹ نیشنل پریس کلب اسلام اور اے پی پی میں سرائیکی خبروں کی انچارج ڈاکٹر سعدیہ کمال شامل تھیں۔

آگاہی سیشن میں میڈیا کے مقامی نمائندے، سول سوسائٹی اور مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا نے شرکت کی۔ اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر سعدیہ کمال نے تمام شرکا کا خیر مقدم کیا اور اکانٹیبیلیٹی لیب پاکستان کو اس اہم ایشو پر سیشن منعقد کرانے کو سراہا۔ آگاہی سیشن کے شرکا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ, لوگ اہم معلومات اور فیصلوں کے لئے میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، لہذہ رپورٹنگ میں شفافیت کو یقینی بنانا صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے جعلی خبریں بہت زیادہ پھیل رہی ہیں تمام صحافتی اداروں اور بالخصوص صحافیوں کی انفرادی طور پر ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے۔شرکا سے خطاب کے دوران مس ظل ہما کا کہنا تھا کہ “یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکے، اس سلسلے میں حکومت مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال پر نہ صرف اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مسلسل مشاورت کرتی ہے بلکہ شہریوں کے لئے اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب فریم ورک اور قوانین بھی تیار کرتی ہے۔ تاہم یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم جعلی خبروں اور غلط معلومات کو نہ پھیلائیں جوکہ بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

جعلی خبروں اور غلط معلومات کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی جعلی خبروں اور غلط معلومات عوامی اظہار رائے اور ملک میں جمہوری اقدار کے لئے ایک خطرہ بن چکی ہیں۔ آن لائن ڈس انفارمیشن نے مستنعد معلومات تک رسائی، سیاسی پولرائزیشن، سوشل میڈیا کا غلط استعمال، مین اسٹریم میڈیا پر عدم اعتماد اور نفرت انگیز مواد جیسے مسائل پیدا کئے ہیں۔ تقریبا” 85 ملین افراد پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، جس سے غلط معلومات کے منفی اثرات اور بڑھ گئے ہیں۔ڈاکٹر ظفر اقبال کا مزید کہنا تھا کہ کووڈ-19 جیسی عالمی وبا کے دوران افواہوں، اور غلط معلومات نے انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ اسی طرح اس عالمی وبا کے دوران آن لائن غلط معلومات کے ناقابل تردید منفی کردار کو بھی دیکھا گیا۔

تعلیمی اداروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبا کے معاشرے میں مثبت کردار کو یقینی بنانے کے لئے میڈیا لٹریسی کو نصاب کا ایک اہم جز بنایا جائے۔ یہ اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طلبا کو اس قابل بنائیں کہ وہ تمام ذرائع کی طرف سے آنے والی معلومات کا تنقیدی جائزہ لے سکیں۔ڈان نیوز کے بیوریوچیف، افتحار حسین شیرازی کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا کمرشلزم اورمقابلے کے اس دور میں جعلی خبروں اور غلط معلومات نے صحافتی مسائل میں بڑی حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے فورم کی تشکیل پر زور دیا جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور عوامی نمائندے ان تمام مسائل پر بات چیت کر سیکیں اور کوئی ایسا قابل حل تجویز کرسکیں جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔