ٹرانسجینڈر ایکٹ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان


اسلام آباد(صباح نیوز)جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے وفاقی شرعی عدالت کو بتایا ہے کہ میں نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تناظر میں نیا بل سینٹ میں پیش کیا ہے ،نیا بل جائزہ کیلئے سینٹ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر انہوں نے بتایا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ  میں  پہلی ترمیم میں نے جمع کروائی تھی ، میری ترمیم  پر دیگر سینٹرز نے بھی ترامیم جمع کروائیں۔

بعد ازاں میڈیا سے بات چیت میں  سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ جماعت اسلامی اور خواجہ سراؤں کمیونٹی بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔یہ قانون مسلہ ہے، ہم  اس مسلے پر قانونی راستہ اختیار کریں گے یہ قانون خلاف قرآن و سنت ہے،پارلیمنٹ اور حکومت مزاحمت کر رہی ہے،اسلامی نظریاتی کونسل بتا چکی ہے کہ یہ غلط ہے،پارلیمنٹ دستوری راستے سے ہٹ رہی ہے  جس پر احتجاج کیا جانا چا ہیے ،حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جج کے قتل کی تحقیقات کی جائے،

وفاقی شرعی عدالت میں قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس قاسم ایم شیخ  کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کی۔عدالت میں ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف مقدمات جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان و دیگر نے دائر کیے۔جے یو آئی ف، اوریا مقبول جان، سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں ۔عدالت نے وزارت انسانی حقوق سے خواجہ سراؤں کو دی گئی ملازمتوں کا ڈیٹا طلب کر رکھا تھا۔

وزارت انسانی حقوق نے عدالت میں کہا کہ رپورٹ جمع کرادی 39 وزارتوں سے رپورٹ منگوائیں لیکن تمام سے جواب نہیں مل سکا مزید وقت دیا جائے۔عدالت نے کہا کہ یہ بات قابل تشویش ہے کہ وزارت انسانی حقوق کے پاس ڈیٹا نہیں۔عدالت نے حکام وزارت انسانی حقوق سے استفسار کیا کہ کب تک رپورٹ جمع کرائیں گے۔حکام وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ آئندہ سماعت تک رپورٹ جمع کرائیں گے۔عدالت نے وزارت انسانی حقوق کو آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دے دی۔نادرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ  نادرا ریگولیشن کو تبدیل کررہے ہیں، چیئرمین نادرا نے منظوری دے دی بورڈ سے منظوری باقی ہے۔عدالت نے ہدایت کی کہ نادرا جلد بورڈ کا اجلاس بلا کر ریگولیشنز میں ترمیم کی منظوری لے۔کامران مرتضی نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس دے دیں۔

عدالت میں سینیٹر مشتاق احمد خان کے وکیل عمران شفیق نے دلائل کا آغاز کرتے  ہوئے کہا کہ کیس میں بہت ساری درخواست دائر ہوئی ہیں، جینڈر اور صنف ایک ہی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ، مرد اور عورت کا دائرہ کار الگ الگ واضح کیا ہے، جنسی اور صنف کا تعین علامات ہی ہیں یا کوئی اور بھی ہے۔  قانونی اور شرعی طور پر دیکھنا ہو گا کہ کیا کوئی خود اپنے جنس کا تعین کر سکے گا۔قائم مقام چیف جسٹس شرعی عدالت نے کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ وفاق کا ہے ابھی صوبوں کی ضرورت نہیں۔وکیل نے مزید کہا کہ ایکٹ میں ٹرانسجینڈر کا لفظ ہے مگر اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی، ٹرانسجینڈر فرد کی صرف تعریف کی گئی ہے، ٹرانسجینڈر وہ ہے جو دونوں صنف کا مالک ہو۔سماعت کے دوران وکیل عمران شفیق نے کہا کہ ایکٹ کے تحت کوئی بھی ٹرانسجینڈر کو اختیار ہوگا کہ وہ خود سے اپنے صنف کا فیصلہ کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ قران و سنت میں خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، اسلام میں انٹر سکس کا تعین کیا گیا ہے، اسلام صنف کی واضح علامات کی بیناد پر مرد اور عورت کی کیٹگری رکھتا ہے۔عمران شفیق کے وکیل کا کہنا تھا کہ خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، عالمی قانون بھی خود سے صنف کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔   سینٹر مشتاق نے عدالت کو بتایا کہ پہلی ترمیم میں نے ٹرانسجینڈر ایکٹ میں میں جمع کروائی تھی ، میری ترمیم  پر دیگر سینٹرز نے بھی ترامیم جمع کروائیں ۔اب میں نے اک نیا بل سینٹ میں پیش کیا ہے ،نیا بل جائزہ کیلئے کمیٹی کو بھجوا دیا ہے ۔ عدالت نے سینٹر مشتاق  سے کہا کہ آپ اپنے نئے بل کی کاپی بھی دے دیں ۔

دوسری جانب درخواست گزار شاہانہ عباس نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2017 کے بعد ہم حج پر نہیں جا سکتے۔شاہانہ عباس نے مزید کہا کہ میرا پہلا کارڈ مرد کی بیناد پر بنا تھا اب میرا آئی ڈی کارڈ پر ایکس لکھا ہے جس کے باعث حج پر نہیں جا سکتے، ایکٹ کے بعد ہم کسی عرب ممالک میں نہیں جا پا رہے۔وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف مقدمات کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کردی۔