ہمارا حال دیکھیں۔ وزیراعظم کے کورونا پیکیج پر اربوں روپے کے اخراجات کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ کیا اور پتا چلا کہ ان اخراجات میں چالیس ارب روپے کی بدعنوانی پائی گئی۔
یہ رپورٹ کوئی چھ ماہ قبل فائنل ہو گئی لیکن حکومت نے اس کو جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ چند روز قبل اس رپورٹ کو جاری کر دیا گیا اور اس کی وجہ آئی ایم ایف ہے، جس نے پاکستان کو قرضہ جاری کرنے کے لیے دوسری شرائط کے علاوہ یہ شرط بھی رکھی کہ اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ شفافیت اور ایمانداری کے دعوے کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت اس رپورٹ کو اس لیے چھپائے ہوئے تھی کہ اس میں چالیس ارب روپےکی بدعنوانی کا ذکر ہے۔
گزشتہ روز ایک اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وزیر اعظم کورونا پیکیج کے تحت 133 ارب روپے دیئےگئے جس میں آڈٹ رپورٹ کے مطابق پچیس ارب روپے کی بدعنوانی ہوئی۔ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کو دس ارب روپے اس پروگرام کے تحت دیئے گئے جس میں پانچ ارب بیس کروڑ کی بدعنوانی پائی گئی۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو بائیس ارب بیس کروڑ روپے اس پروگرام کے تحت دیئے گئے جس میں چار ارب 80 کروڑ کی بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی۔
خبر کے مطابق اگرچہ 30 جون 2020 تک وزیر اعظم کورونا پیکیج کے لیے کھربوں روپےمختص کیے گئے تھے لیکن جو رقم اصل میں خرچ کی گئی وہ بہت کم تھی۔
مثلاً ڈیلی ویجرز (دیہاڑی داروں) کے لیے دو سو ارب روپے اس پیکیج میں رکھے گئے لیکن اس مد میں صرف 16 ارب روپے تقسیم کیے گئے۔ غریب ترین خاندانوں کے لیے مختص رقم 150 ارب روپے تھی جبکہ خرچ کی گئی رقم 145 ارب روپے تھی۔
یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لیے سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کو صرف دس ارب روپے دیئے گئے۔ اسی طرح کورونا کی وجہ سے معاشی بدحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے مخصوص صارفین کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں میں رعایت دینے کے لیے سو ارب روپے رکھے گئے لیکن اس مد میں بھی صرف پندرہ ارب روپے خرچ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق چین نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو چار ملین ڈالر کورونا کے مریضوں کے لیے مختص ڈھائی سو بستروں پر مشتمل انفیکشن سنٹر بنانے کے لیے دیے لیکن ایسا کوئی ہسپتال بنایا ہی نہیں گیا اور اس پیسے کو استعمال ہی نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ اسی ادارہ نے مہنگے وینٹی لیٹرزز خریدے جس سے دس لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے تقریباً پانچ لاکھ ایسے افراد کوکورونا پیکیج کے تحت کُل تقریباً سات ارب روپے تقسیم کیے‘ جو غریب نہ تھے۔ ایسے افراد کو بھی پیسہ دیا گیا جو ریٹائرڈ ملازمین تھے اور پنشن لیتے تھے۔
اسی پروگرام کے تحت پیسہ اُن لوگوں کو بھی چلا گیا جو انکم ٹیکس فائلرز پائے گئے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق اس پیکیج کے تحت ایسے افراد کو بھی پیسہ دیا گیا جو پہلے ہی BISP کے ساتھ ساتھ زکوۃ فنڈ سے بھی مستفید ہو رہے تھے۔تقریباً سات ارب روپے اُن افراد کو بھی دیئے گئے جن کو نادرا ضرورت مندوں کی لسٹ سے نکال چکا تھا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق ان بدعنوانیوں میں خریداری کے متعلق گھپلے بھی شامل ہیں اور کئی اشیاء مہنگے داموں بغیر مروجہ طریقہ کار اپنائے خریدی گئیں۔ شفاف اور بہتر طرز حکمرانی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ حکومت اس رپورٹ کو چھپانے کی بجائے فوری شائع کرتی اور ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کرتی لیکن خان صاحب کی حکومت نے اس رپورٹ کو ہی چھپا دیا کیوں کہ اس کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔
اب رپورٹ کو سامنے اس لیے لایا گیا کیوں کہ آئی ایم ایف کی یہ شرط تھی، جو انتہائی شرم کی بات ہے۔ ویسے اب یہ رپورٹ سامنے آ چکی لیکن نہ حکومت نے تحقیقات کا اعلان کیا اور نہ ہی نیب اور اس کے چیئرمین کے کان پر کوئی جوں رینگی۔
چالیس ارب روپے کی بدعنوانی ہوگئی، خبر چھپ گئی، اس پر شور ہو گا اور پھر سب بھول جائیں گے کیوں کہ یہاں قومی دولت کی خوردبرد ایک عام رواج بن چکی ہے جسے تبدیلی سرکار نے بھی قبول کر لیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ