ہمت کریں، ایسا نہ کریں۔۔۔عرفان صدیقی


گھر کے باہر کافی دیر سے کوئی باربار ڈور بیل بجاکر اپنی آمد کی اطلاع دے رہا تھالیکن گھرمیں مجھ سمیت موجود ہر شخص موبائل فون میں مگن اس انتظار میں تھا کہ کوئی دوسرا اٹھ کر دروازہ کھولے، بالآخر اماں کا حکم ہوا، میں بے دلی سے اٹھا اور دروازے کی جانب بڑھا، معلوم کیا تو پتہ چلا کہ گھر میں کسی نے ریستوران سے کھانا آرڈر کیا تھا اورکھاناڈیلیورکرنے والے صاحب کھانا لے کر آئے ہیں، میں دروازے پر پہنچا سامان وصول کیا اور مطلوبہ رقم ادا کرتے ہوئے ایک لمحے کو کھانا لانے والے کی ن آنکھوں میں دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ میرے سامنے کھڑا شخص کوئی عام آدمی نہ تھا بلکہ وہ پاکستان کے ایک ممتاز ادارے میں اہم عہدے پر فائز رہ چکا تھا جس سے ملنے کے لئے بھی انتظار کرنا پڑتا تھا، میں اس انتظار کی زحمت سے گزر چکا تھا، مجھے حیران ہوتا دیکھ کر شاید وہ بھی مجھے پہچان چکے تھے چنانچہ فوری طورپر ہیلمٹ پہن کر واپسی کے لئےبائیک پر بیٹھے ہی تھے کہ میں نے انھیں روک لیا اور زبردستی گھر کے اندر لے آیا، میں اس قابل احترام شخص کو صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ تک دیکھ چکا تھا لیکن حیران تھا کہ ایسی کیا آفت آئی کہ وہ یہ سروس جوائن کرنے پر مجبور ہوگیا ؟ میں نے تفصیلات معلوم کیں تو پتہ چلا جس ادارے میں وہ ملازمت کرتے تھے، ملک کے معاشی حالات خراب ہونےکیوجہ سے ادارے کے حالات بھی خراب ہوگئے اور انھیں ملازمت سے برطرف کردیا گیا، کئی ماہ تک دوسری نوکری کےلئے کوششیں کیں جس میں ناکام رہے، کوئی تکنیکی ہنر تھا نہ ہی کوئی بڑی رقم جمع کر سکے تھے کہ کوئی اور ملازمت یا کاروبار کرلیتے، چند ماہ تک جمع پونجی سے گھر چلایا، بھلا ہو کورونا کا کہ بچوں کو فیس نہ ہونے کی وجہ سے گھر بٹھایا لیکن انھیں یہی بتایا کہ کورونا کی وجہ سے آپ لوگ اب گھر میں پڑھو، دفتر کی گاڑی تو ملازمت کے خاتمے کے ساتھ ہی واپس جاچکی تھی لیکن ماضی میں خریدی گئی موٹرسائیکل گھر میں موجود تھی، اگلے ایک سال تک معاش کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکے جس کے باعث معاشی حالات انتہائی خراب ہوگئے، چاربچوں اور دو میاں بیوی سمیت چھ افرادکے کنبے کیلئے کم ازکم دو وقت کی روٹی تو چاہئے تھی، مشکل وقت میں ادھار دینے والے بھی کم ہی ہوتے ہیں وہ بھی اب ختم ہوچکے تھے، روز صبح نکل جاتے اور شام کو خالی ہاتھ واپس آتے، بچوں کی اداس شکلیں دیکھ کر دل ٹوٹ سا جاتا، صورتحال یہ تھی کہ زندگی بھی اب بری لگنے لگی تھی ایک روز تو یہ بھی سوچا کہ زندگی کا خاتمہ ہی کرلیں لیکن دل نہ مانا، پھر ایک دوست نے اس ملازمت کابتایا، ہمت کی اور اس کام پر لگ گئے، جس سے زندگی کی گاڑی کچھ نہ کچھ چل ہی رہی ہے، ان کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اپنے سینئر دوست کے بارے میں سوچتا رہا، اللّٰہ تعالیٰ ان کا پردہ رکھے اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے، پاکستان میں معاشی حالات واقعی بہت ابتر ہوچکے ہیں، ملازمتیں ملنا مشکل ہیں پھر جتنے کی ملازمت ملتی ہے اتنا تو بجلی کا بل آجاتا ہے، میرے ایک اور دوست بھی ملک کے ابتر معاشی حالات کا شکار ہوئے، ان کی شان و شوکت کا میں خود بھی گواہ ہوںکہ صوبے کے آئی جی اور ڈی آئی جی بھی ان سے ملاقات کے خواہشمند ر ہا کرتے تھے، لیکن پھر وہ ملازمت سے برطرف ہوئے، سفید پوش تھے جمع پونجی نہ ہونے کے برابر تھی، کافی کوششوں کے بعد بھی ملازمت نہ ملی، بچوں کا اسکول چھوٹا، پانی، بجلی، گیس کے بل بھرنا مشکل ہوگیا، لیکن انھوں نے زندگی سے ہار نہیں مانی اور آخری پانچ ہزار روپے سے سبزی کا اسٹال لگایا اور روز کے ہزار سے پندرہ سو روپے کماکر بچوں کا پیٹ پالا جب تک دوبارہ ملازمت نہ مل گئی، جاپان میں بھی ایسی کئی مثالیں ہیں جب لوگ پائی پائی کے محتاج ہوئے لیکن انہوںنے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی خود کشی کا سوچا،تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ زندگی خوشحالی اور مشکلات کا مرکب ہے، خوشحالی پر آپے سے باہر نہ ہوں اور مشکلات میں ہمت نہ ہاریں، زندگی آپ کے پاس اللّٰہ تعالیٰ کی امانت ہے، آپ کے ساتھ بہت سارے رشتے جڑے ہوتے ہیں آپ خود کشی کرکے اپنی اور اپنوں کی زندگی ہی خراب نہیں کرتے ، بلاشبہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، حکمراں بھی یاد رکھیں آپ کو ہر فاقہ کش کی فاقہ کشی کا آخرت میں جوابدہ ہونا پڑے گا، غریبوں کو خودکشی کی سوچ تک پہنچانے کا جواب دینا پڑے گا لیکن قوم سے بھی التجا ہے کہ خدارا اپنے آس پڑوس والوں کا خیال رکھیں، اللہ تعالیٰ فہیم مغل کی مغفرت فرمائے۔ آمین!

بشکریہ روزنامہ جنگ