بتایا گیا ہے کہ 1952ء میں گندم نو روپے من تھی اور 1953ء میں 16روپے من تھی۔ یہ تحقیق یا تذکرہ سنا سنایا نہیں۔ یہ میں نے ایلس کے خطوط میں پڑھا ہے جو انہوں نے جیل میں بلاجواز قید فیضؔ صاحب کے نام لکھے تھے۔ یہ خطوط تو میں بہت بار پہلے پڑھ چکی تھی۔ فی الوقت، ان کی ضرورت اس لئے پڑی کہ میرے سامنے اپنی پیاری منیزہ ہاشمی کی اپنے باپ کو چالیس سال بعد یاد کرتے ہوئے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے تمام نشیب و فراز میں وقت نکال کر جیل ہو کہ روس کہ لندن جب فیض صاحب جیل سے باہر اپنے خاندان کے ساتھ رہے تو وہ بالکل ٹھیک کہتی ہے کہ وہ میرے ابو تھے۔ ساری دنیا ان کو فیضؔ صاحب کہہ کر پکارتی، محبت کرتی اور ہمیشہ اتنے لوگ ان کے اردگرد ہوتے تھے کہ ’’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا لکھتے ہیں۔ کیوں لکھتے ہیں‘‘۔ منیزہ ہاشمی جنہیں ہم سب میزو کہتے ہیں اور جس کے نام سے متاثر ہوکر میں بھی اپنے بیٹے معظم کو میزو کہنے لگی تھی۔ اس کی زندگی کے کم از کم 60سال کی میں بھی شاہد ہوں۔
میزو ہاشمی نے آخر چالیس برس تک کیوں اپنی یادوں کو چھپائے رکھا اور اتنی دیر سے یاد کرنے کا سبب کیا تھا۔ میزو نےا پنے ذہن میں اپنی زندگی کی یادوں کو مرصع کیا۔ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ باقاعدہ مکالمہ کیا (جو ہمارے مشرقی معاشرے میں اب تک ناممکن ہے)۔ میں نے میزو کے بچپن کو ایلس کے خطوط کے ذریعہ پہلے پہچانا اور پھر گزشتہ 60سال کی دوسراہت میں گزاری زندگی میں ایلس کا کہنا سچ لگا کہ وہ ہر بات پر ناراض ہوتی، سوال کرتی، غصے میں آ جاتی اور جب کبھی پیسے مانگنے ہوتے تو ابو کو کہتی اور وہ خط میں بھی لکھتے اور زبانی بھی کہتے۔ ’’بس تمہاری ماں کو پتہ نہ چلے۔‘‘ ماں کون تھی، جس نے فیض صاحب کے چار سال جیل میں قید رہتے ہوئے، سائیکل چلانا سیکھی۔ پاکستان ٹائمز میں بچوں کے صفحے مرتب کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ دونوں بیٹیوں کے یونیفارم، اسکول کے کام، گھر کے اخراجات کے علاوہ، کسی نہ کسی شام کو وہ اوران کے دوست جیسے مظہر علی خان، طاہرہ اور صوفی صاحب اور باقی سب فیض صاحب کے دوستوں نے کبھی فلم دکھائی، کبھی باہر کھانے پر لے گئے۔ سالگرہ اور وہ بھی میزو کی باقاعدہ منائی جاتی۔
میزو ہاشمی کی کتاب کو باقاعدہ تین ابواب میں رکھ کر پڑھا جاسکتا ہے۔ اول تو ان کا بچپن جس کو ان کی ماں نے کہا اور سچ کہا تھا کہ میزو میرے اوپر اور چھیمی باپ پر گئی ہے۔ میزو نے جیسے اپنی یادوں کو مرتب کرنے سے پہلے اسے اپنے بیٹوں کے ساتھ بات چیت میں پرویا ہے، وہ اس کی پرورش کے دوران، ماحول کو اور غربت میں بھی کبھی فکر نہ کرنے کی فیضؔ صاحب کی عادت اور ایلس کی پاکستان کے ماحول میں دہری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فیضؔ صاحب کو خط میں لکھتی ہیں،’’ میں نے سائیکل چلا چلا کر اپنا وزن کم کرلیا ہے‘‘۔ میزو نے نوکری کی بے پناہ مصروفیت کے باوجود، جس طرح، اپنی بہوؤں، پوتوں اور پوتیوں پر محبت نچھاور کی، یہ وہ فریم ہے جس میں ہم لوگوں کو میزو کبھی دکھائی نہیں دی۔ وہ اپنی پرانی دوستوں کو بھی یہ کتاب لکھتے ہوئے یاد رکھتی ہے اور ان کے پرخلوص مشوروں کو بھی خوب داد دیتی ہے۔اس کا بڑا بیٹا علی جو ماشاء اللہ طویل القامت ہے اور جس کی قامت کو دیکھ کر فیضؔ صاحب نے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’ کہا جاتا ہے طویل القامت لوگ احمق ہوتے ہیں‘‘۔ مگر ان کے پوتے نے فیض صاحب کی زندگی، جدوجہد اور شاعری کےبارے میں بڑی مستند اورباقاعدہ تحقیق کے بعد کتاب تحریر کی ہے جبکہ عدیل میں بے ساختگی کے ساتھ باتیں کرنے، فقرے بازی اور گفتگو کا فن خود اس کا ایجاد کردہ ہے۔ فیض صاحب نے میزو کو بس ایک نصیحت کی تھی کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو،پھر جہاں چاہوگی شادی ہو جائے گی اور فیض صاحب اپنی قناعت پسند عادت کی طرح کہتے’’گھر بھی بن جائے گا‘‘۔
میزو کے شوہر حمیرہاشمی، شعیب ہاشمی کے چھوٹے بھائی اور ماہرِ نفسیات ہیں۔ میں جب ڈائریکٹر اردو بورڈ تھی، اس زمانے میں مبسوط نفسیات پر ایک علمی اور تحقیقی کتاب اپنے دوست کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ میزو کی کتاب میں خاندان کے ہر فرد کے بارے میں اپنے تاثرات لکھے ہوئےہیں، اس نے کہیں بھی حمیر ہاشمی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ وہ اس کی زندگی میں شامل ہے اور اب تک رہا ہے مگر ہماری بہت سی لکھنے والیوں کی طرح ا پنے شوہر کی بلاوجہ خوبیاں بیان نہیں کی ہیں۔ میزو نے بہت محنت اور بہت دشمنوں میں اپنی مضبوط شخصیت کے بل پر نوکری کی وہ منزلیں طے کیں کہ جو اس طرح کی نوکری میں خواتین خاص طور پرپی ٹی وی پر جب پروڈیوسر آتی ہیں اور پروڈیوسر ہی ریٹائر ہو جاتی ہیں جبکہ میزو نے لاہور کے علاوہ اسلام آباد میں گھر بار چھوڑ کر بڑی استقامت کے ساتھ کام کیا۔ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ میزو ہاشمی نے ابو کی وفات کے بعد فیض صاحب کی شاعری، شخصیت اور ان کی عادتوں کو اپنانے اور پہچاننے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں وہ ملکوں ملکوں گئی۔ فیض کی شاعری اور شخصیت پر سیمیناروں کو منعقد بھی کیا اور خود فیض کو سمجھنے کیلئے۔ اپنے چھوٹے بیٹے اور بڑی بہن چھیمی کے ساتھ مل کر فیض فاؤنڈیشن کے ذریعے عالمی اور ملکی سطح پر فیض فہمی کو وسعت دینے کیلئے اپنے ساتھ قابلِ تعریف گفتگو کرنے والی استاد، پروفیسر عارفہ سیدہ کے خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا اور سال کے سال فیض کی سالگرہ کی تقریب ملک کی سب سے بڑی تقریب بن گئی۔
میزو ہاشمی نے جس طرح اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے اپنے ساتھ عدیل اور دوستوں کے علاوہ سنگِ میل کے علی کامران کو ملایا۔ فیض صاحب کے انگریزی خطوط کا عکس اور اردو ترجمہ جس فنی توقیر کے ساتھ پیش کیا وہ قیمت کے بہت زیادہ ہونے کو اس لئے برداشت کرنا پڑ رہا ہے کہ بقول ایلس اب نو روپےمن گندم کہاں، اب تو نو روپے میں بھی کچھ نہیں آتا۔
میزو! تمہارے اندر باپ کاحسِ مزاح ہے۔ اُسے سلامت رکھو۔ اب جب تمہارا قلم اور ذہن کھل گیا ہے۔ اپنی عظیم ماں کو بھی یاد کرو کہ اس خاتون نے تو فیض صاحب کو لکھتے رہنے کی جانب راغب کیا اورجیسا وہ کرنا چاہتے تھے کرنے کی جانب مائل کیااور خوش دلی سےان کا ساتھ نبھایا اور تم دونوں بہنوں کو کتاب دوستی سکھائی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ