قصہ سیاسی روبوٹ کا۔۔۔مظہر عباس


تھی خبر گرم کے غالب کہ اُڑیں گے پُرزے

دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشا نہ ہوا

جب جدوجہد کا راستہ ترک کر دیا جائے اور گزارا آڈیو اور ویڈیو گیمز پر ہو تو سیاست میں آپ کو بیشتر سیاست دان روبوٹ ہی ملیں گے ایسے میں الیکشن ’’الیکٹرونک ووٹنگ مشین‘‘ کے ذریعہ ہو یا موجودہ سسٹم کے تحت کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک روبوٹ جائے گا تو دوسرا آ جائے گا۔

اس کا عملی مظاہرہ چند دن پہلے ہم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور اُس کے بعد سینیٹ میں دیکھا۔ ہر طرف روبوٹ ہی نظر آئے جدوجہد کرنے والے ساتھی ویسے بھی اب سیاست کیا صحافت اور عدلیہ میں بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔

2018 کے بعد سے سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر کامیاب حکومت ہوتی ہے۔ مجال ہے کبھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی پارٹیوں کے اُن سینیٹرز یا اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی ایکشن لیا ہو۔ ایسے میں نتائج وہی نکلیں گے جو نکلے۔

حزب اختلاف کو پتا نہیں 6اکتوبر کے بعد کیا نظر آرہا تھا کہ شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو تک بلندبانگ دعوے کرتے رہے ،مگر حکومتی گنتی پوری نکلی اپوزیشن کی کم۔اب اگر 20 نومبر کے بعد ان روبوٹ سیاست دانوں میں کوئی نیا سسٹم فیڈ کر دیا گیا ہو تو پتا نہیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں کم از کم اپوزیشن سے۔

اس سارے تنازع میں سب سے کامیاب چوہدری برادران اور متحدہ والے رہے۔ اپوزیشن سمجھی ان کا سافٹ ویئر تبدیل ہوگیا ہے پتا چلا صرف تکنیکی خرابی تھی جو دور کردی گئی ہے۔ماضی میں جب روبوٹ نہیں آئے تھے تو سیاست میں حرارت محسوس ہوتی تھی اور سیاست دان مشین نہیں لگتے تھے۔

کوڑے پڑتے تھے تو زخم بھی لگتا تھا اور درد بھی ہوتا تھا مگر جذبہ تھا کہ پھانسی بھی چڑھ جائیں تو غم نہیں۔وہ محض ایک سیاسی رومانس نہیں تھا اک نظریہ پر قائم رہنا تھا۔ ایسے ہی نہیں حسن ناصر اور نظیر عباسی پیدا ہوئے اور کئی نے بھگت سنگھ کی طرح نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی کا پھندہ خوشی سے قبول کیا۔

قید میں رہے تو بیمار پڑنے پر علاج جیل کے اسپتال میں ہی کرایا، بیرون ملک جانے کی درخواست نہیں کی۔

کبھی لکھوں گا ان کارکنوں کی حالت زار پر جو ماضی کے ٹارچر کی وجہ سے نارمل نہ رہے۔بدقسمتی سے بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ماضی میں جدوجہد کی مگر پھر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ بہتر سمجھا اور ’’روبوٹ‘‘ بننا قبول کرلیا کیونکہ ان کی اپنی جماعتوں کو بھی روبوٹ کی ضرورت تھی۔ اصولوں پر کھڑے رہنے والوں کی نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست بے توقیر ہوتی چلی گئی۔

جدوجہد ترک کی تو مفاہمت کی چادر اُوڑھ لی گئی اور کہا گیا مزاحمت کا وقت گزر گیا۔ کل مفاہمت ہوئی تھی آمروں سے اور آج ہورہی ہے قاتلوں سے۔ دونوں بار اس کو ملکی مفاد سے جوڑ دیا گیا۔ پہلے کی مفاہمت کے نتیجے میں ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘کی بنیاد پڑی اور دوسرے کے نتیجے میں آپ تیار رہیں اس ریاست کو انتہا پسندی کی طرف لے جانے کے لئے

۔روبوٹ سیاست اسی کا نام ہے۔ اگر صحیح معنوں میں ہم جمہوریت کی طرف بڑھتے تو کم از کم پچھلے 13سال کے جمہوری ادوار میں طلبہ یونینیں بحال ہوتیں، ٹریڈ یونین مضبوط ہوتیں، بلدیاتی ادارے خودمختار اور طاقتور ہوتے۔ مگر روبوٹ سیاست دان کیوں چاہیں گے کہ جاندار قیادت سامنے آئے، مزدوروں میں سے لوگ اوپر آئیں۔

لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کو اس سے بہتر نظام نہیں چاہئے جو بظاہر جمہوری نظر آئے مگر سیاست سے لے کر صحافت تک ہر چیز حکمراں اور کیا حزبِ اختلاف۔ایسے میں اگر قابلِ احترام چیف جسٹس آف پاکستان یہ کہیں کہ ’’عدلیہ پر کوئی دبائو نہیں اور نہ آنے دیں گے‘‘ تو کچھ اطمینان تو ہوا پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔اب جب سیاست سے صحافت تک کنٹرول ہی کنٹرول ہے تو الیکشن RTSسے ہوں یاEVMسے روبوٹ ہی منتخب ہوں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں دھاندلی کے انداز مختلف ہیں۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ 1970کے انتخابات بڑے صاف اور شفاف تھے مگر کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ کیا وجہ تھی کہ دونوں بڑی جماعتوں نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے یا مذہبی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں کس طرح اور کتنے اُمیدوار کھڑے کئے۔ پھر بھی اگر انتقالِ اقتدار ہو جاتا تو عین ممکن ہے سیاست میں سیاستدان ہی ہوتے روبوٹ نہیں۔

پشت پر کوئی ہو مگر یہ بات خاصی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کا عروج مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی 2008 سے2018تک کی ناقص سیاست کا نتیجہ ہے ورنہ تو2002 میں خان اسمبلی میں واحد پی ٹی آئی کا ایم این اے تھا۔

اس وقت تو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ایک ہی سافٹ ویئر فیڈڈ ہے۔ البتہ اس لحاظ سے وزیراعظم کامیاب ہیں کہ حزب اختلاف کے ہر ایکشن کا فائدہ حکومت کو ملتا ہے۔ اس لئے مجھے اس چیز کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ الیکشن 2023 سے پہلے ہوں۔ البتہ زلزلے کے جھٹکے زیادہ آئیں گے۔

واقعی یہ فیصلہ کن موڑ ہے مزید تاخیر کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی مگر میاں صاحب! ملک کو کھائی سے لندن میں بیٹھ کر نہیں نکالا جاسکتا۔ آپ نئے سافٹ ویئر کے ساتھ واپس آئیں کیونکہ اپوزیشن میں رہ کر آپ کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ بس تھوڑی سی ہمت اور کریں۔

رہ گئی بات آنے والے الیکشن کی تو حضور، ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ لاکھوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔ EVMبھی آجائے گی بس مشین چلانے والوں سے معاملات بہتر رہیں۔ تحریک لبیک پاکستان سے معاملات طے ہورہے ہیں۔

اب چاہے ہمارے وزیر اطلاعات فواد چوہدری انتہا پسندی کے خلاف جتنی بھی دبنگ تقریر کرلیں۔ لگتا یہی ہے کہ ریاست کا سافٹ ویئر تو اعجاز چوہدری صاحب کے اندر فیڈ ہے۔ اس لئے تیار رہیں آنے والے روبوٹ اسی فیڈڈ سسٹم کے ساتھ آئیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ