یہ ایک روشن دن تھا۔ ایک بہت ضروری ملاقات کے سوا سب چیزیں ڈھنگ سے انجام پائیں۔دفتر گیا، کالم لکھا اور بروقت ریلوے سٹیشن جاپہنچا۔ ایک حادثہ مگر منتظر تھا۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان ریل گاڑی کا سفر ہی آرام دہ محسوس ہوتاہے۔شام کو چلنے والی ریل کار کی نشستیں آرام دہ واقع ہوئی ہیں؛حالانکہ ان کا ڈیزائن ڈیڑھ سو برس پہلے بنایا گیا تھا۔ برصغیر کے لوگ آرام دہ فرنیچر کے تصور سے کم ہی آشنا تھے؛حتیٰ کہ بادشاہوں کے تحت بھی کبھی آرام دہ نہ تھے۔ دوسرے اداروں کی طرح ریلوے بھی تباہ حال ہے۔ غلام احمد بلور نے اس ادارے کو تقریباً مکمل طور پر برباد کر دیا تھا۔ سعد رفیق نے مقدور بھر ریاضت کی لیکن پھر شیخ صاحب آپہنچے، اپنی ذاتِ گرامی کے سوا جنہیں کسی چیز سے کبھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اب میرے محترم دوست اعظم سواتی ہیں، جذبات سے لبریز، ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے آرزومند۔ وزیر بنے تو اعلان کیا، چھ ماہ میں ادارے کا خسارہ ختم کر دوں گا۔ ارشاد فرمایا کہ شیخ صاحب سے رہنمائی پائیں گے۔ عرض کیا: اگر واقعی آپ کچھ کر دکھانے کے آرزمند ہیں تو سعد رفیق کے پاس جائیے۔ ثمر خیز کاوش، بالخصوص الجھے کاموں کو سلجھانے کے لیے والہانہ وابستگی اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب آدمی خود کو کسی چیز کے لیے وقف کر دیتاہے، اسے اپنی ترجیحِ اوّل بنا لیتا ہے، جب اپنا مقصد اپنی ذات سے زیادہ عزیز ہو جاتا ہے۔ ساری خرابیوں کے باوجود صبح سویرے اور شام ڈھلے راولپنڈی سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی چلنے والی ریل کاریں دوسری گاڑیوں سے بہتر ہیں۔ کھانا پینا میسر، غسل خانہ تو ظاہر ہے اوّل دن سے ریل کا حصہ تھا۔ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اب ایک نیا،ڈھنگ کا ریستوران وجود پا چکا۔ تین چار برس سے اکثر ریل کا سفر رہتا ہے؛چنانچہ لاہور اور پنڈی ریلوے سٹیشنوں پر عملے سے آشنائی ہو گئی۔راولپنڈی ریلوے کے ایک جواں سال دوست، خاص طور پہ خیال رکھتے ہیں۔ اپنے زمانہ ء طالب علمی سے جو آشنا ہیں۔ اخبارات کا پلندہ اور حال ہی میں چھپنے والی اعزاز احمد چوہدری کی کتاب Footprints” “Diplomatic ساتھ رکھ لی تھی، جس کا ایک تہائی پڑھا جا چکا،نہایت سلیقہ مندی سے مرتب کی گئی دستاویز۔ جیسا کہ مسافر کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، اخبار پڑھنے اور کتاب کھولنے کا موقع ہی نہ ملا۔ پہلے ایک صاحب پاس آبیٹھے۔ پھر ایک ریلوے افسر اپنے کام نمٹا کر شریکِ محفل ہو گئے۔ سیاست میں دلجمعی اب باقی نہیں۔ ان صاحب سے میں ریل کے بارے میں پوچھتا رہا۔ ہمارا قومی مزاج مگر یہ ہے کہ گھوم پھر کر بات سیاست ہی پر آن ٹھہرتی ہے۔ دیر تک بات ہوتی رہی۔ تحریکِ انصاف کے اکتائے ہوئے ایک کارکن بار بار پوچھتے رہے کہ کیا کریں۔ پارٹی میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ راولپنڈی میں جماعت کے لیڈروں سے وہ نالاں تھے۔ ان کے خیال میں وہ بدعنوان،موقع پرست اور سطحی ہیں۔ عرض کیا: سیاست ہی کیا ضروری ہے۔ اپنے کاروبار میں جی لگائیے۔ پھر ایک عجیب انکشاف ہوا۔ معلوم ہوا کہ سیاست سے زیادہ خدمتِ خلق ان کا مشغلہ ہے۔ بے روزگاروں، بیواؤں اور یتیموں کے مددگار ہیں۔ شرماتے ہوئے، میرے اصرار پہ کچھ تفصیل بھی بتائی۔ عرض کیا: اس سے اچھا کام اور کیا ہو سکتاہے۔ ڈھنگ کی کوئی پارٹی کبھی وجود میں آئے تو یہ شوق بھی پورا کر لیجیے گا۔ چھوٹی سی اس زندگی کو ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ کوئی بہانہ آدمی کے پاس ہونا چاہئیے کہ پروردگار کے سامنے پیش کر سکے۔ اب ہم گوجر خان سے گزر آئے تھے، دل جہاں اٹکا رہتا ہے۔ گاڑی راولپنڈی سے صرف تیس چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھی کہ غسل خانے کا رخ کیا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا، پانچ چھ دن سے جس کی زد میں ہوں۔ باتھ روم سے تعجیل میں نکلا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں تعجیل ہی موزوں ہوتی ہے۔ درویش نے تاہم یہ کہا تھا: تعجیل اکثر خطرناک ہوتی ہے۔ گاہے اپنے ساتھ بربادی لے کر آتی ہے۔ معلوم نہیں کیسے ہوا، دروازہ بند کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا زد میں آگیا۔ کچھ زیادہ پرواہ نہ کی۔ حادثہ ہو جائے تو گھبراہٹ اس کی تندی کو بڑھا دیتی ہے۔ ایسے میں صبر اور سکون ہی سہارا دیتا ہے۔ اس پر تعجب سا ہوا کہ ڈبے میں اکثر لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ تب انگوٹھے پر نظر پڑی اور معلوم ہوا کہ خون مسلسل ٹپک رہا ہے۔ اپنی نشست پر جا بیٹھا۔ دو تین منٹ کے لیے درد کی ایسی شدت تھی کہ خدا کی پناہ لیکن پھر تھمنے لگا۔ معلوم نہیں، کس طرح اور کیوں۔ بس ایک ہلکی سی ٹیس، جس کی تاب لانا مشکل نہ تھا۔ گھر کے قریب کئی نجی ہسپتال قائم ہیں اور بعض بہت اچھے بھی لیکن سی ایم ایچ سب سے بہتر ہے۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ پرائیویٹ معالج اس وقت شاید میسر نہ ہوں یا توجہ نہ دے سکیں۔ظاہر ہے کہ سی ایم ایچ شب بھر کھلا رہتا ہے۔ برادرم یوسف گل نے مشورہ دیا کہ سیدھے وہاں چلے جاؤ۔ انگوٹھے کو چھو کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ حادثہ شدید ہے۔ جوڑ ٹوٹ گیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اوپری حصے کے سوا جلد پوری طرح سلامت۔منع کرنے کے باوجود ساتھ کی نشست پر بیٹھے انجینئر صاحب نے اپنی قیمتی گرم چادر سے خون صاف کیا۔ ریلوے افسر بھاگتا ہوا گیا اور مرہم پٹی کا سامان لایا۔ انکشاف ہوا کہ ہمیشہ یہ ریل میں موجود ہوتا ہے۔ پٹی بندھی تو قرار اور اطمینان قدرے بڑھ گیا۔ ایک عزیز دوست کو فون کیا کہ کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل میں کسی سے بات کر لیں۔ ’’بات کیا؟‘‘ بے تابی سے وہ بولے’’میں خود ہسپتال پہنچ رہا ہوں۔‘‘ پتّے کی تکلیف کے سبب بیس دن کے لیے دو بار اس علاج گاہ میں داخل رہا۔ علالت کی کوفت کے باوجود ان دنوں کی یادیں خوشگوار ہیں، کچھ توبہت ہی خوشگوار۔ خاص طور پر جنرل ترمذی کی بشاشت اور نرسوں کی انچارج محترمہ عابدہ۔ فرض شناس نہیں، سگے بہن بھائیوں اور اولاد کی طرح تیمار داری کرنے والی۔ اب کی بار تجربہ مختلف ہوا، ناگوار نہیں، حیران کن حد تک خوشگوار۔ ایمرجنسی میں داخل ہوا تو کئی مسیحا لپکے۔ دردکش دوا دی، نئی پٹی باندھی، ضروری ٹیسٹ کیے اور تصاویر بنا کر سینئر ڈاکٹرز کو بھیجیں۔ ضروری ہدایات دیں اور اگلے دن نو بجے ہسپتال پہنچنے کا کہا کہ آپریشن کیا جا سکے۔ آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر صاحب نے درجن بھر سوالات پوچھ ڈالے۔ شوگر؟ بلڈ پریشر؟ قلب؟ کوئی مصنوعی دانت؟ شادمانی سے انہیں بتایا کہ ان میں سے کوئی مرض کبھی نہ تھا۔ یکسو ہو ئے تو پوچھا: کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ بازو شل کر کے آپریشن کیا جائے یا مکمل بے ہوشی میں۔ مریض نے یہ معالج پہ چھوڑ دیا۔ یہ ایک روشن دن تھا۔ ایک بہت ضروری ملاقات کے سوا سب چیزیں ڈھنگ سے انجام پائیں۔دفتر گیا، کالم لکھا اور بروقت ریلوے سٹیشن جاپہنچا۔ ایک حادثہ مگر منتظر تھا۔ (جاری)
Load/Hide Comments