اسی لاکھ کشمیری مقامی آبادی پر30 لاکھ بھارتی شہری مسلط ہیں،نعیمہ مہجور


سری نگر:بھارتی فوج کے محاصرے میںمقبوضہ کشمیر کی80 لاکھ مقامی آبادی ان دنوں شدید مشکلات کا شکار ہے کیوں کہ ان دنوں کم و بیش30 لاکھ بھارتی شہری  ان پر مسلط ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کم و بیش 7 یا 8 لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے ،  ان دنوں 10 لاکھ بھارتی سیاح بھی مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں، دو لاکھ سے زیادہ بھارتی مزدور بھی کشمیر میں کام کر رہے ہیں  جبکہ 10 لاکھ  ہندو یاتریوں کی مقبوضہ کشمیر آمد شروع ہوچکی ہے ۔

کے پی آئی  کے مطابق برطانیہ میں مقیم کشمیری خاتون صحافی نعیمہ احمد مہجور نے غیر ملکی نیوز پورٹل میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امرناتھ یاترا کے لیے رواں برس میں 10 لاکھ سے زائد یاتریوں کی کشمیر آمد متوقع ہے جن کے لیے انتظامات امرناتھ شرائن بورڈ نے کرنے ہوتے ہیں لیکن اس بورڈ کے سربراہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر ہیں، لہذا ڈیڑھ ماہ سے زائد جاری رہنے والی یاترا  بھارتی  حکومت کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔شاید یہ دنیا کی واحد یاترا ہے جس کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز تین سو کلومیٹر پر پھیلی ہوئی جموں سے سری نگر قومی شاہراہ اپنے کنٹرول میں لیتی ہے اور یاتری قافلوں کے گزرنے کے بعد ہی شہریوں کو چلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ویسے فوجی قافلوں کی مسلسل نقل حمل کی وجہ سے بھی یہ شاہراہ اکثر عام شہریوں کے لیے دن میں کئی گھنٹے بند کی جاتی ہے جس سے یہ پورا علاقہ ایک جنگی خطے کی شکل پیش کرتا ہے۔قاضی گنڈ کے ایک دکاندار فرحت بٹ کہتے ہیں کہ فوجی قافلے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید جنگ شروع ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے باقی خطوں میں جنگ دشمن سے ہوتی ہے مگر یہاں دشمن کی جگہ ہم جیسے عام لوگ ہیں، ہماری نقل و حرکت بند کرکے ہمیں سانس لینے کی بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔رپورٹوں کے مطابق کشمیر میں ویسے بھی ایک لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکار موجود ہیں، تقریبا 10 لاکھ سیاح ہندوستان کی میدانی علاقوں کی تمازت سے بچنے کے لیے آج کل کشمیر میں وارد ہوئے ہیں، دو لاکھ سے زائد ہندوستانی مزدور طبقہ پہلے ہی وادی میں موجود ہے، 10 لاکھ سے زائد امرناتھ یاتری آرہے ہیں جس کے باعث 80 لاکھ مقامی آبادی کے لیے پہلے ہی زمین تنگ پڑ رہی ہے اور بندشوں کی وجہ سے شدید گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔پھر جب سیکیولر ملک کی حکومت عوام کی مشکلات دور کرنے کی بجائے امرناتھ یاترا کو اپنی پالیسی کی ترجیحات قرار دیتی ہے تو یہ بات جمہوری دنیا کو سمجھانا مشکل نہیں ہے۔

نعیمہ احمد مہجور نے کہا کہ  اس کا اظہار حال ہی میں بھارت کے ایک دانشور نے کشمیر پر ہونے والی ایک عالمی کانفرنس کے دوران کیا۔ کانفرنس میں موجود جمہوری ملکوں کے نمائیندوں کی نظریں نیچے جھک گئیں۔مسئلہ نہ یاترا کا ہے نہ یاتریوں کا، جن پر 96 تک بغیر کسی شور شرابے اور ووٹ بٹورنے کے ہوتی رہی ہیں جب ریاست میں تقریبا 40 سے 50 ہزار یاتری وارد کشمیر ہوتے تھے، جن کی دیکھ ریکھ مقامی کشمیری کرتے تھے، بالخصوس وزارت سیاحت اس کا نظام سنبھالتی تھی۔ اس یاترا میں جہاں ہندووں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا تھا وہیں سیاحت سے منسلک کشمیریوں کی اچھی خاصی آمدن بھی ہوتی تھی۔جموں کے کٹھوعہ علاقے میں ماتا ویشنو دیوی کی یاترا بھی ہوتی ہے اس کے لیے بھی شرائن بورڈ قائم ہے جس سے ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ مگر اس یاترا کو کبھی نہ تو سکیورٹی کا مسئلہ بنایا گیا اور نہ ووٹ حاصل کرنے کا پروپیگنڈا بلکہ اس یاترا سے حاصل آمدن سے تعلیمی اور طبی ادارے بنا کر عوام کو راحت پہنچائی جاتی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ گذشتہ ہفتے شاہراہ پر واقع بیشتر دوکان داروں نے الزام لگایا کہ انہیں 45 روز تک جاری رہنے والی یاترا کے دوران اپنی دکانیں بند کرنے کا حکم جاری ہوا ہے اور اس شاہراہ پر قائم سکولوں کو بند کرنے کے ہدایات بھی دی گئی تھیں۔مقامی لوگوں کو اس کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اننت ناگ کے معروف سیاسی تجزیہ نگار اور سابق سیاست دان افتخار مسگر نے سوشل میڈیا پر اس سے متعلق ایک ویڈیو جاری کی تھی جو ایک روز کے بعد ہی غائب ہو گئی۔ سوشل میڈیا کی ایک سپیس میں معلوم ہوا کہ انہیں ویڈیو ہٹانے کی ہدایت ملی تھی۔افتخار مسگر سے میں نے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس پر کافی کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے کبھی یاترا پر اعتراض نہیں کیا مگر یہ اعتراض ضرور ہے کہ یاتریوں کے آنے سے ان کی آمدن بڑھنے کے بجائے ختم کر دی جاتی ہے، دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مین سٹریم جماعتیں عوام کو درپیش شدید مشکلات پر مسلسل خاموش ہیں جبکہ انتخابی عمل کی خبریں سن کر فورا خواب غفلت سے جاگ گئی ہیں۔