برآمدات میں اضافہ کیسے ہو؟۔۔۔ڈاکٹر عشرت حسین


پچھلے پچاس سال کے عرصے میں چارسے سات فیصد سالانہ کے درمیان فی کس آمدنی میں اضافہ برقرار رکھنے والی ابھرتی ہوئی معیشتوں، جیسا کہ چین، کوریا، ہانگ کانگ، سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ممکنہ طور پر نئی معیشت، ویت نام کی ترقی دیکھتے ہوئے ایک معاشی مبصر کو جوچیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ ان کی برآمدی منڈیوں کی غیر معمولی کارکردگی ہے۔ 1980 میں تقریباً صفر سے شروع ہونے والا چین اب برآمدی مارکیٹ کا دس فیصد سے زیادہ شیئر رکھتا ہے۔ اس طرح یہ امریکہ اور جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک بن چکا ہے، گرچہ اس کی فی کس آمدنی صرف 11000 ڈالر ہے جو کہ امریکہ کا پانچواں حصہ ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور، ویت نام اور ملائیشیا کی برآمدات ان ملکوں کے جی ڈی پی کے 100 یا اس سے زیادہ فیصد پر مشتمل ہے، جب کہ تھائی لینڈ کا 50 فیصد ہے۔ صرف انڈونیشیا بہت زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے متذکرہ بالا ممالک سے پیچھے ہے۔ لیکن یہ جائزہ لینا دلچسپ ہوگا کہ اکتوبر 2021 میں انڈونیشیا کی برآمدات 53 فیصد اضافے کے ساتھ بائیس بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یہ حجم 2019-20میں پاکستان کی سالانہ برآمدات کے مساوی ہے۔

مندرجہ بالا منظر نامے کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات کے ساتھ کیا ہوا ؟ عالمی منڈیوں میں ہمارا حصہ گزشتہ تیس بر سوں میں 0.2 فیصد سے کم ہوکر 0.15 فیصد پر آگیا ہے۔ 1992ء میں جی ڈی پی میں ہماری برآمدات کا تناسب سترہ فیصد تھا جو اب کم ہوتے ہوتے دس فیصد تک گرچکا ہے۔ ہندوستان 2013 تک 7 فیصد سے 23 فیصد اور بنگلہ دیش 6 سے 19 فیصد تک چھلانگ لگانے میں کامیاب رہا۔ اس عرصے میں 2008 کے بحران کے علاوہ عالمی معاشی حالات ترقی پذیر ممالک کے لیے خوشگوار اور انتہائی سازگار تھے۔ عالمی تجارت عالمی پیداوار سے دوگنی شرح سے بڑھ رہی تھی اور ترقی پذیر ممالک کا حصہ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ صدی کے اختتام پر پاکستان اپنے تجارتی بل کا نوے سے ستانوے فیصد حصہ برآمدات سے پورا کرلیتا تھا، لیکن آج یہ شرح صرف 47 فیصد رہ گئی ہے۔واحد سطحی عوامل، جیسا کہ کرنسی کی قدر میں یک لخت بہت زیادہ کمی اس پریشان کن رجحان کی تسلی بخش وضاحت نہیں کر سکتی۔ 2000 اور 2007 کے درمیان پاکستانی روپے کی ڈالر کی شرح مبادلہ نسبتاً مستحکم تھی۔ اس دوران برآمدات 8.6 بلین ڈالر سے دگنی ہو کر 17 بلین ڈالر ہو گئیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 2 بلین سے بڑھ کر 2007 میں 16.5 بلین ڈالر ہو گئے ۔ کرنٹ اکاؤنٹ چھ میں سے تین برسوں تک سرپلس میں تھا اور جی ڈی پی کے تناسب سے بیرونی قرضہ47.6 سے نصف ہوکر27.8 فیصد تک آگیا تھا۔ جو لوگ اس نتیجے کو مصنوعی شرح مبادلہ کا نتیجہ بیان کرتے ہیں وہ یہ بتانے سے قاصر ہوں گے کہ اگر شرح مبادلہ کو ایک خاص سطح تک مصنوعی طور پر برقرار رکھا جائے تو زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ گنا کیسے بڑھ سکتے ہیں؟2007-08 اور 2012-13 کے دوران کرنسی کی قدر میں پچپن فیصد کمی کے نتیجے میں برآمدات میں صرف چوبیس فیصد اضافہ ہوا۔ 2013-14 اور2018-19 کے درمیان برآمدات 24.8 بلین ڈالر سے کم ہوکر 23.2 بلین ڈالر ہوگئیں۔ اس دوران شرح مبادلہ میں نسبتاً استحکام رہا تھا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے معاملے میں شرح مبادلہ کی اثر پذیری غیر واضح اور مبہم رہتی ہے۔ اس دوران ہمیں دیگر عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو ہماری برآمدات میں مسلسل کمی کی وضاحت کرتے ہیں۔

اب تک عوامی گفتگو کا موضوع برآمدات کے فروغ میں حکومت کا کردار رہا ہے اور ہماری برآمدات کو مسابقت کے قابل بنانے والے اہم عوامل پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ وہ عوامل جو مصنوعات کی پیداوار، تقسیم اور فروخت پر اثر اندازہوتے ہیں۔ ہم ریاست کو اس کردار سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ریاست کا کردار ضروری ہے لیکن یہ حتمی نہیں ہے۔ یہ مضمون مختلف جہت اختیار کرتے ہوئے ان عوامل کو اجاگرکرتا ہے جو فرموں کے کنٹرول میں ہیں یا فرموں اور حکومت کے درمیان تعامل اور تعاون کا نتیجہ ہیں۔ برآمدی شعبے میں صنعت کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے مراعات، ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی، کم شرح سود پر قرضوں کے حصول جیسے اقدامات اسلام آباد کی طرف مرکوز نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ اس سے وہ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بیساکھیوں پر انحصار کرتے رہیں گے اور پیداواری عدم توازن کا شکار ہوجائیں گے۔ انہیں محنت کے پیداواری فوائد، پیشہ ور افراد کی خدمات، داخلی تنظیم کی تشکیل نو، لاجسٹکس کی اصلاح، حصول کے طریقوں، مشترکہ منصوبوں میں شمولیت اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے سرمائے کو متحرک کرنے اور آئی پی اوز کے ذریعے نت نئی فعال صنعتوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے صنعتوں کی پوشیدہ صلاحیت کو بروئے کار لانا چاہیے۔ایک بار جب ان سے مشاورت کرتے ہوئے حکومت درمیانی مدت کی تجارت، ای کامرس، خدمات کی برآمد، شعبہ جاتی برآمدی پالیسیوں اور توانائی کی قیمتوں، ٹیرف کی شرح، ڈی ایل ٹی ایل وغیرہ جیسی مراعات کا اعلان کر دے تو برآمد کنندگان کو چاہیے کہ وہ نئی منڈیوں کو تلاش کریں اور نئی مصنوعات کی تیاری شروع کریں۔ انہیں بار بار اسلام آباد جانے کے بجائے شنگھائی، لاگوس، جوہانسبرگ، منیلا، جکارتہ، تاشقند، تہران، استنبول وغیرہ کی طرف جانا چاہیے۔

سب سے زیادہ مستقل اور دیرپا رجحان جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، وہ ہماری برآمدی صنعتوں میں کم پیداواری صلاحیت ہے جو خطے میں سب سے کم ہے اور چین کا صرف 30 سے 40 فیصد ہیں۔ ہم کم اجرت والے ملک ہو سکتے ہیں لیکن پیداوار، کارکردگی، معیار (مسترد کی شرح)، ساکھ اور اختراع کے لحاظ سے ہم ایک مہنگے ملک ہیں۔ چالیس فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ پاکستان کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں اس کا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے برآمد کرنے والی فرموں اور حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مل کر صورت حال کو بدلیں۔ اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول نہ کریں۔ مزدوروں کو ادا کی جانے والی اجرت کو مالی بوجھ سمجھنے، عارضی اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے، تربیت اور ہنر کی تشکیل اور اپ گریڈیشن کے لیے وسائل کا مختص نہ کیا جانا مسائل کو مزید بڑھاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا حسابی تصور ہے۔ فرض کریں کارکنوں اور ملازمین کو راغب کرنے، برقرار رکھنے، تربیت دینے، اچھامعاوضہ دینے اور حوصلہ افزائی کرنے سے مجموعی پیداواری صلاحیت میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہےتو اس کا منافع تقسیم ہوکر پندرہ فیصد مالک جب کہ پانچ فیصد کارکنوں کو ملے گا۔(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ